تمام رات مرے جسم و جاں مہکتے رھے

تُمہاری یاد کی خوشبُو لگائی تھی مَیں نے

تمام رات مرے جسم و جاں مہکتے رھے

سرُور ھِجر کے موسم میں بھی نہ ماند پڑا

حواس ضبط کے عالم میں بھی بہکتے رہے

دیارِ خواب میں کچھ طائرانِ خوش آواز

تمہارے آنے کی اُمید میں چہکتے رہے

نواحِ دل میں کئی روشنی بھرے سائے

وفورِ شوق سے گاتے رھے ، لہکتے رھے

مَیں تُم سے دُور تھا ، لیکن تُمہارے ہاتھ میں تھا

گذشتہ شب مَیں کسی اور کائنات میں تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]