تمہارے بعد رہا کیا ہے دیکھنے کے لیے

اگرچہ ایک زمانہ ہے دیکھنے کے لیے

کوئی نہیں جو ورائے نظر بھی دیکھ سکے

ہر ایک نے اسے دیکھا ہے دیکھنے کے لیے

بدل رہے ہیں زمانے کے رنگ کیا کیا دیکھ

نظر اٹھا کہ یہ دنیا ہے دیکھنے کے لیے

ذرا جو فرصت نظارگی میسر ہو

تو ایک پل میں بھی کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے

گزر رہا ہے جو چہرے پہ ہاتھ رکھے ہوئے

یہ دل اسی کو ترستا ہے دیکھنے کے لیے

نہیں ہے تاب نظارہ ہی آفتابؔ حسین

وگرنہ دہر میں کیا کیا ہے دیکھنے کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]