تم مری زندگی میں بھی نہیں ہو
اور اب شاعری میں بھی نہیں ہو
وصل کی خواہشوں سے نکلے تو
ہجر کی بے بسی میں بھی نہیں ہو
تم نے جب دوستی نہیں رکھی
تو مری دشمنی میں بھی نہیں ہو
میرے دل کے سکون کے موجب
تم مری خودسری میں بھی نہیں ہو
میں جو تم میں اگر کہیں نہیں ہوں
تم مری ڈکشنری میں بھی نہیں ہو
پہلے پہلی قطار میں تھے تم
اور اب آخری میں بھی نہیں ہو