تم نہ عریاں ہوئے غنیمت ہے
اس قدر روشنی کا کیا کرتا
زندگی آخرش بسر کر دی
اور اس زندگی کا کیا کرتا
تنگ آیا ہوا ہو جو خود سے
کوئی اس آدمی کا کیا کرتا
جو مرے شعر سن کے آیا تھا
وہ مری خامشی کا کیا کرتا
منزلِ عشق مہرباں ہی سہی
ذوقِ آوارگی کا کیا کرتا
بے بسی تو قبول کر لیتا
اس پہ اپنی ہنسی کا کیا کرتا
رونقِ رقصِ مرگ سے بڑھ کر
تم کہو، بے دلی کا کیا کرتا