تو خدا ہے خدا ، تو کہاں ، میں کہاں

میں ہوں بندہ ترا ، تو کہاں ، میں کہاں

تو ہی معبود ہے ، تو ہی مسجود ہے

میں ہوں وقفِ ثنا ، تو کہاں ، میں کہاں

نور ہی نور ہے ذاتِ باری تری

خاک سے میں بنا ، تو کہاں ، میں کہاں

کیا حقیقت مری ، میں فنا ہی فنا

تو بقا ہی بقا ، تو کہاں ، میں کہاں

خالق و خلق کے بیچ موجود ہے

اک بڑا فاصلہ ، تو کہاں ، میں کہاں

تیرے اوصاف کا کب احاطہ ہوا

تو گماں سے سوا ، تو کہاں ، میں کہاں

تیرے اسرارِ پنہاں سمجھنے سے ہے

ذہن عاجز مرا ، تو کہاں ، میں کہاں

تو مخاطب ہے شام و سحر اور میں

بے زباں ، بے نوا ، تو کہاں ، میں کہاں

میری اوقات کیا ، ہے نبی بھی مرا

نام لیوا ترا ، تو کہاں ، میں کہاں

کیا ملائک ترے ، کیا فراغِؔ حزیں

سب کی ہے یہ صدا ، تو کہاں ، میں کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]