تِری ہی شکل کے بُت ہیں کئی تراشے ہوئے

نہ پُوچھ کعبہِ دِل میں بھی کیا تماشے ہوئے

ہماری لاش کو میدانِ عشق میں پہچان

بجھی ہوئی سی ہیں آنکھیں تو دلخراشے ہوئے

بوقتِ وصل کوئی بات بھی نہ کی ہم نے

زباں تھی سُوکھی ہوئی، ہونٹ اِرتعاشے ہوئے

وہ کیسے بات کو تولیں گے، اور بولیں گے؟

جو پٙل میں تولے ہوئے اور پٙل میں ماشے ہوئے

تمام پیار کا الزام ڈالئے ہم پر

کہ عام لوگ ہیں ہم آپ تو مہاشے ہوئے

میں تیرے شہر سے نکلا تھا عین اُس لمحہ

ترے نِکاح پہ تقسیم جب بتاشے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]