تپتا صحرا ہوں، کرم کا کریں سایہ مجھ پر

کر دیا تنگ جہاں والوں نے رستہ مجھ پر

چاہتا ہوں کہ ملے اذنِ رسائی مجھ کو

آرزو ہے مِری ہوں ملتفت آقا مجھ پر

خواب میں دیکھتا تھا روز میں اِک نخلستان

جا کے پھر شہرِ نبی میں کھلا سپنا مجھ پر

گوبھٹکتا ہوں اندھیروں میں پہ ہے مجھ کو یقیں

کہ اجالوں کا وہی کھولیں گے عقدہ مجھ پر

جاں ہتھیلی پہ لئے ہوں کہ انہیں پیش کروں

جب سے واجب ہے ہوا عشق کا صدقہ مجھ پر

دے رہا ہوں میں اسی آس پہ دستک تنویر

وا کریں گے وہ درِ شہرِ مدینہ مجھ پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]