تھام کر صبر کی مہار حسین

ہوئے دشت بلا سے پار حسین

تجھ کو زیبا ہے تاج ذبح عظیم

اے شہیدوں کے تاجدار حسین

دے کے ناحق کو یادگار شکست

کر گئے حق کو آشکار حسین

تیری گلکاریوں کے صدقے میں

گلشن دیں میں ہے بہار حسین

جس کو دنیائے عشق کہتے ہیں

تم ہوئے اس کے شہسوار حسین

آسماں آتشیں قبا اوڑھے

تیرے غم میں ہے سوگوار، حسین!

یہ سمندر یہ آبجو یہ سحاب

تشنگی پر تری نثار حسین

شوکت و سطوت و عروج سبھی

ہیں تری راہ کا غبار، حسین!

امتحاں سامنے نہ ہوتا تو

تھا بہت تیرا شیر خوار حسین

ختم صحرائے غم نہیں ہوتا

تو لگادے ہمیں بھی پار حسین

میرے اہل و عیال، مال و منال

تجھ پہ سو جان سے نثار حسین

ہر مصیبت کو ٹال دیتی ہے

یاد بن کر تری حصار، حسین

مغفرت کی سند صدف پائے

چوم آئے ترا مزار، حسین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]