تھی کس کے مقدر میں گدائی تیرے در کی
قدرت نے اسے راہ دکھائی تیرے در کی
میں بھول گیا نقش و نگار رخ جنت
صورت جو کبھی سامنے آئی تیرے در کی
پھر اس نے کوئی اور تصور نہیں باندھا
ہم نے جسے تصویر دکھائی تیرے در کی
رویا ہوں میں اس شخص کے پاؤں سے لپٹ کے
جس نے بھی کوئی بات سنائی تیرے در کی
یہ ارض سماوات تیری ذات کا صدقہ
محتاج ہے یہ ساری خدائی تیرے در کی
آیا ہے نصیر آج تمنا یہی لے کے
پلکوں سے کیے جائے صفائی تیرے در کی