ثبوت کوئی نہیں ہے ، گواہ کوئی نہیں

گناہگارو ! تمہارا گناہ کوئی نہیں

فصیل و بام نہ دیوار و در نہ بندِ قبا

نگاہِ عشق میں حدِ نگاہ کوئی نہیں

ترے بدن سے مرے دل تلک ہیں خواب ہی خواب

مگر ہمارے لیے خوابگاہ کوئی نہیں

ہماری خاک کرے گی سفر ستارہ وار

ہماری آخری آرام گاہ کوئی نہیں

پھر ایک دن کہا آدم نے اپنی حوّا سے

یہ پہلا بوسہ ہے ، اِس کا گناہ کوئی نہیں

کسی سے ایسا تعلق بنا لیا ہے کہ اب

کسی بھی اور تعلق کی چاہ کوئی نہیں

!یہ مملکت ہے محبت کی سو یہاں مرے دوست

سبھی غلام ہیں اور بادشاہ کوئی نہیں

!مجھے یہ کہنا نہیں چاہیے مگر فارس

مرے علاوہ مرا خیر خواہ کوئی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]