جانے والا اضطراب دل نہیں

یہ تڑپ تسکین کے قابل نہیں

جان دے دینا تو کچھ مشکل نہیں

جان کا خواہاں مگر اے دل نہیں

تجھ سے خوش چشم اور بھی دیکھے مگر

یہ نگہ یہ پتلیاں یہ تل نہیں

رہتے ہیں بے خود جو تیرے عشق میں

وہ بہت ہشیار ہیں غافل نہیں

جو نہ سسکے وہ ترا کشتہ ہے کب

جو نہ تڑپے وہ ترا بسمل نہیں

ہجر میں دم کا نکلنا ہے محال

آپ آ نکلیں تو کچھ مشکل نہیں

آئیے حسرت بھرے دل میں کبھی

کیا یہ محفل آپ کی محفل نہیں

ہم تو زاہد مرتے ہیں اس خلد پر

جو بہشتوں میں ترے شامل نہیں

وہ تو وہ تصویر بھی اس کی جلالؔ

کہتی ہے تم بات کے قابل نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]