جب تک کہ جان جان میں اور دم میں دم رہے
ہے آرزو کہ دل تری چوکھٹ پہ خم رہے
عظمت کو ان کی عرش نے جھک جھک کیا سلام
جو لوگ تیرے ساتھ رہیں ستم رہے
گر فکر ہو تو تیری اطاعت کی فکر ہو
گر غم رہے تو تیری محبت کا غم رہے
سیرت میں تیری کوئی کہیں پیچ و خم نہ تھا
کچھ خم رہے تو گیسوئے مشکیں میں خم رہے
سوچا تھا میرے جرم و خطا حد سے بڑھ گئے
دیکھا جو حشر میں تری رحمت سےکم رہے
اتنی ہی تیرے لطف سے محرومیاں رہیں
جتنے کہ وصف غیر میں مصروف ہم رہے
بی من بہار حسن تو گردد نہ ہیچ کم
بی تو نشاط را بہ سوئی ماست کم رہے
کچھ کی طرف قدم قدم اپنا قلم گیا
مضمون کچھ رواں دواں سوئے قلم رہے
جو لوگ تیرے طرہ مشکیں پہ ہیں فدا
لوح حیات پر وہیں مشکیں رقم رہے