جب تک کہ جان جان میں اور دم میں دم رہے

ہے آرزو کہ دل تری چوکھٹ پہ خم رہے

عظمت کو ان کی عرش نے جھک جھک کیا سلام

جو لوگ تیرے ساتھ رہیں ستم رہے

گر فکر ہو تو تیری اطاعت کی فکر ہو

گر غم رہے تو تیری محبت کا غم رہے

سیرت میں تیری کوئی کہیں پیچ و خم نہ تھا

کچھ خم رہے تو گیسوئے مشکیں میں خم رہے

سوچا تھا میرے جرم و خطا حد سے بڑھ گئے

دیکھا جو حشر میں تری رحمت سےکم رہے

اتنی ہی تیرے لطف سے محرومیاں رہیں

جتنے کہ وصف غیر میں مصروف ہم رہے

بی من بہار حسن تو گردد نہ ہیچ کم

بی تو نشاط را بہ سوئی ماست کم رہے

کچھ کی طرف قدم قدم اپنا قلم گیا

مضمون کچھ رواں دواں سوئے قلم رہے

جو لوگ تیرے طرہ مشکیں پہ ہیں فدا

لوح حیات پر وہیں مشکیں رقم رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]