جب ثنائے پاک میں ہوتا ہوں گرمِ جستجو
منصرف رکھتا ہوں دل کو از جہانِ چار سو
ایک بحرِ بیکراں وہ میں ذرا سی آبجو
لکھ نہیں سکتا ہوں مدحت میں بقدرِ آرزو
نرم خو، سنجیدہ فطرت، خوش جبیں، آئینہ رو
طرفہ سیرت، خوش ادا، شیریں کلام و خوش گلو
ربِ دو عالم نے خود توصیف فرما دی ہو جب
خلقِ پاکیزہ پہ اس کے کیا کریں ہم گفتگو
زلفِ سنبل سے کہیں خوش تر وہ زلفِ مشک بو
آبِ گوہر گم بروئے رشتۂ دندان اُو
جو چلے بر نقشِ پائے مصطفیٰ وہ سرخرو
مژدۂ رب ان کو فی جنّٰت عدنٍ اُدخلوا
نرم خوئی، پاک بینی، پارسائی، عبدیت
ان اداؤں پر نثار اس کے جہانِ رنگ و بو
جب وہ آیا آدمیت تھی دریدہ پیرہن
اس نے کی بخیہ گری اس نے کیا کارِ رفو
ہے طریقِ عشق میں مسلک یہی اے ہم نشیں
بھیجئے اس پر درودِ پاک ہو کر با وضو
وہ امام الانبیاء ہے وہ حبیبِ کبریا
ذکر اس کا چار سو ہے نام اس کا کو بکو
ساقیا اک جام اس عاجز نظرؔ کو حشر میں
جام تیرا، حوض تیرا، مالکِ کوثر ہے تو