جسم سے روح کا جدا ہونا

کتنا آساں ہے بے وفا ہونا

گُر نہ آیا مجھے منانے کا

اُس نے سیکھا فقط خفا ہونا

کوئی ذرّہ کہیں نہ رہ جائے

تم ذرا ٹھیک سے جدا ہونا

مشق جاری ہے غلط ہونے کی

سیکھ جائیں گے ہم بجا ہونا

اچھے اچھوں کا فیض پایا ہے

ہم کو اچھا لگا بُرا ہونا

آفتِ دل بھی روح پرور ہے

تم کبھی صبر آزما ہونا

حوصلے کا پہاڑ ہوتا ہے

چند لمحوں کا آسرا ہونا

آج شاید تری سُنی جائے

آج تم محوِ التجا ہونا

بس خلاصی ہے ایک ہونے میں

مار دیتا ہے دوسرا ہونا

لوگ نظریں جمائے رکھتے ہیں

کیا مصیبت ہے دلربا ہونا

زینؔ، ہے گیت گنگنانا بھی

اُس کا ہونٹوں سے بس ادا ہونا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]