جس سے امید جانثاری کی
بات اس نے بھی کاروباری کی
زندگی ناگ تھی کچل ڈالی
ایک ہی چوٹ ایسی کاری کی
یہ لکیریں نہیں ہیں چہرے پر
وقت نے مجھ پہ دستکاری کی
لازمی ہجر تھا نصاب میں سو
جو محبّت تھی اختیاری کی
موت آئی تو یہ کھلا مجھ پر
حد نہیں کوئی بے قراری کی
جس کو سر پر چڑھائے رکھتا تھا
اس نے کب پیٹھ میری بھاری کی
ایک دکھ نے لگا لیا تھا گلے
اک اداسی نے غم گساری کی
اس کے کوچے سے لوٹنا تھا عبث
اس لئے الٹی گنتی جاری کی
درج محرومیوں کے نعرے کیے
دل کی دیوار اشتہاری کی