جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا
ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا
تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں
تیرا چہرا ہے سویرا میرا
تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج
ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا
میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟
مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا
پیار کی میرے اُسے عادت ہے
اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا
وہ تو خوشبو ہے بھُلا دے اُس کو
مرتضیٰ مان بھی کہنا میرا