جلا کے رکھے ہیں توصیفِ مصطفیٰ کے چراغ

ہوائے تیز دکھائے ذرا بُجھا کے چراغ

وہی ہے عشقِ پیمبر کے کارواں کا امیر

وہ جس کے قلب میں جلتے رہیں وفا کے چراغ

جو فتح چاہو تو رکھو جلا کے ساتھ اپنے

حدیثِ شہ کے ‘فرامینِ ذوالعلیٰ کے چراغ

یہ آج دین کا چہرہ چمک رہا ہے تو کیوں ؟

کیے ہوئے اِسے روشن ہیں کر بلا کے چراغ

نہیں ہے کچھ بھی مِرا اپنا میرے آنگن میں

کیے ہوئے ہیں چراغاں تری عطا کے چراغ

خدا گواہ وہ گمراہ ہو نہیں سکتے

ہیں جن کے پیشِ نظر سنّت و وِلا کے چراغ

بھٹک رہا ہے جہاں گمرہی کی ظلمت میں

قدم قدم پہ اے ازہرؔ رکھو جلا کے چراغ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]