آج معروف شاعر، مورخ، نقاد، مترجم اور معلم حامد حسن قادری کا یوم وفات ہے

——
حامد حسن قادری 25 مارچ، 1887ء کو بچھرایوں، مراد آباد ضلع، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ریاست رامپور میں واقع مدرسہ عالیہ سے علومِ شرقیہ السنہ یعنی اردو، فارسی اور عربی کے علوم میں دسترس حاصل کی۔ بعد ازاں اسٹیٹ ہائی اسکول رامپور سے میٹرک پاس کیا۔ جامعہ پنجاب سے منشی فاضل اور اردو فاضل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ایف اے کیا۔ بڑودہ کالج اور اسلامیہ کالج اٹاوہ میں تدریس کی خدمات انجام دیں۔ 1917ء میں بڑودہ سے ملازمت کو خیرباد کہہ کر حلیم مسلم کالج جیسے اہم ادارے میں تدریس کے بعد سینٹ جونز کالج، آگرہ میں پروفیسر مقرر ہوئے جہاں 25 سال تک اردو اور فارسی کی تدریسی خدمات انجام دیں۔ 1952ء میں 65 سال کی عمر میں وہ صدر شعبہ اردو و فارسی ریٹائر ہوئے۔ 1955ء میں وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔
حامد حسن قادری بیک وقت شاعر، مورخ، نقاد، مترجم اور محقق تھے۔ ان کی تصانیف کی تصانیف کی تعداد 40 کے لگ بھگ ہے۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ شہرت ‘داستانِ تاریخ ِ اردو’ کو ملی ۔ ان دیگر تصانیف میں ‘ مثنوی نمونۂ عبرت’، ‘تاریخ و تنقید ادبیات اُردو ‘، ‘غالب کی اُردو نثر اور دوسرے مضامین’، ‘جامع التواریخ’، ‘تاریخ مرثیہ گوئی’،’ادبی مقالات’، ‘نقد و نظر’، ‘انتخاب دیوان مومن’، ‘سفینۂ تواریخ’، ‘مضامینِ کائنات’، ‘دفترِ تواریخ’ اور ‘سفینۂ نثر و نظم’سرِ فہرست ہیں۔
حامد حسن قادری 6 جون، 1964ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے اور کراچی کے پاپوش نگر ناظم آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
——
حامد حسن قادری کی زندگی کے چند روشن پہلو – ڈاکٹر شاہ نواز فیاض
——
حامد حسن قادری (۱۸۸۷-۱۹۶۴)کا شمار بیسویں صدی کی ممتاز علمی و ادبی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اپنے علمی تبحر سے نہ صرف شعبۂ ادب کے تقریباً تمام اصناف کو متاثر کیا ،بلکہ اس صدی میں تاریخ، فلسفہ اور تاریخ گوئی کی داستان بھی ان کے ذکر کے بغیرنامکمل رہے گی۔ ان کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں رامپور اور مراد آباد کی علمی، ادبی اور تہذیبی فضا کا بڑا دخل رہا ہے۔
مولانا حامد حسن قادری ضلع مرادآباد کے چھوٹے مگر پررونق قصبہ بچھراؤں کے ایک معزز علمی گھرانے میں ۱۰ مارچ ۱۸۸۷ کو پیدا ہوئے۔ بچھراؤں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، لیکن یہاں جید علماء و فضلا اور دیندار بزرگ پیداہوئے؛ جنہوں نے اپنی کوشش و کاوش سے علم و ادب کے میدان اور شعرو سخن میں نئی راہیں استوار کیں۔ بچھراؤں میں مولانا کا گھرانا ممتاز حیثیت کا حامل تھا۔ مولانا کے گھر میں علم و ادب اور تعلیم و تعلم کا ہی چرچا رہتا۔ اس علمی فضا میں شاعری اور انشاپردازی کی طرف راغب ہونا فطری امر تھا۔
مولانا حامد حسن قادری کے ذہنی اور ادبی ارتقاء میں رام پور کی تہذیبی فضا نے اہم رول ادا کیا، چونکہ مولانا کے والد رام پور میں وکیل تھے، اس لیے آپ کی ابتدائی نشو و نما یہیں ہوئی۔ ۱۸۵۷ کے خونیں اور ناکام انقلاب کے بعد جہاں ایک طرف دہلی اور لکھنؤ کی ادبی محفلیں اجڑ گئیں، وہیںملک کے بعض دوسرے حصوں میں علم و ادب کے نئے چراغ روشن ہوئے۔ دہلی اورلکھنؤ سے اکثر ادباو شعرا اور باکمال اہل علم رام پور آگئے اور یہی مدتوں علم و ادب کا مرکز بھی بنا رہا۔ شعروشاعری کی محفلیں ایک بار پھر آراستہ ہوئیں اور اس وقت کے خاص سماجی اور سیاسی حالات کے تحت اردو ادب میں چند نئے موضوعات اور مخصوص انداز کا اضافہ ہوا۔ ایسے ہی ماحول میں حامد حسن قادری نے ہوش کی آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم ’’مدرسہ عالیہ‘‘ رام پور میں حاصل کی اور اسی دوران اپنے والد صاحب سے قرآن مجید ، احادیث کی بعض کتابیں اور عربی و فارسی کے قواعد سیکھے۔
دبستان لکھنؤ کے ممتاز نمائندہ شاعر امیر مینائی ان دنوں رام پور میں عدالت دیوان کے جج تھے۔ رام پور کی ادبی محفلوں میں آپ کی قادری الکلامی اور شعر گوئی کو بلند مقام حاصل تھا۔
مولانا اوائل عمری سے ہی امیرؔ و داغؔ کے اشعار گنگناتے اور خوب مزے بھی لیتے تھے۔ انہوں نے منشی امتیاز احمد خاں رازؔ جوکہ امیر مینائی کے شاگرد تھے ان سے اصلاح لی تھی۔ ان کے والد مولوی احمد حسن اور چچا پروفیسر محمد محسن فاروقی استاد عربی اسلامیہ کالج، پشاور دونوں ’’بزم احباب‘‘ رام پور کے سرگرم ممبر تھے، جہاں شعر و شاعری اور اخبار و رسائل کا ہی ذکر رہتا تھا۔حامد حسن قادری کو شعر و شاعری اور مضامین لکھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا ،جیسا کہ خود اپنے ایک مضمون ’’میرا کارنامۂ غزل‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’مجھے شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا اور اس زمانے میں شاعری کے معنی غزل گوئی کے تھے۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں رام پور آیا ۱۹۰۰یا ۱۹۰۱ میں خیال آیا کہ اپنا دیوان تصنیف کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک کاپی بناکر الف کی ردیف سے غزل کہنی شروع کردیں…… اس میں غالباً الف، ب،پ، ت تک کی غزلیں ہیں‘‘۔(۱)
حامد حسن قادری نے ۱۹۰۹ میں رام پور سے میٹریکولیشن کا امتحان پاس کیا۔ چونکہ یہ امتحان مولانا نے سخت علالت کے بعد پاس کیا تھا۔ معدہ ، جگر، دل اور دماغ سب ماؤف ہوگئے تھے۔ ایسے میں امتحان کی کامیابی یقینا بڑی نعمت تھی۔ اس کے بعد ۱۹۱۰ میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن سے پاس ہوئے۔ اس کے کچھ مہینے بعد وہ اپنے چھوٹے چچا کے پا س اندور چلے گئے جو مشن کالج میں فارسی کے پروفیسر تھے اور یہیں سے مولانا قادری کا معلمی (استادی) کا دور شروع ہوتا ہے۔ ان کے چچا نے اندور کیمپ کے ایک نیم سرکاری (ریزیڈنسی) ہائی اسکول میں نوکری دلائی اور حامد حسن قادری یہاں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ یہاں مولانا بحیثیت اردو استاد پانچ مہینے رہے۔ لیکن مزید تعلیم کے شوق نے اس نوکری سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔
حامد حسن قادری ۱۹۱۱ کے اوائل ہی میں رام پور آگئے اور کچھ مہینے بعد لاہور جاکر منشی، فاضل اور ہائی پروفیشینسی اِن اردو کے امتحانات دیے۔ ابھی نتیجہ بھی نہیں آیاتھا کہ ۱۹۱۱ ہی میں خان بہادر عادل جی پسٹن زردشتی (پارسی) ہائی اسکول مہو چھاؤنی میں بحیثیت ہیڈمولوی تقرر ہوگیا۔ اسی دوران دونوں امتحانات کے نتیجے آگئے، اور مولانا کامیاب بھی ہوگئے۔ مہو چھاؤنی میں ایک سال سے زیادہ مقیم رہے۔ پھر نومبر ۱۹۱۲ میں مولانا کا اسلامیہ ہائی اسکول اٹاوہ میں بحیثیت اردو وفارسی مدرس تقرر ہوا ۔ ۱۹۱۳ کے اواخر تک اٹاوہ ہی میں رہے۔ جنوری ۱۹۱۴ میں حامد حسن قادری کا تقرر فارسی لیکچرار کی حیثیت سے بڑودہ کالج میں ہوگیا۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا آپ کی صحت کوراس نہیں آئی۔ لہذا جنوری ۱۹۱۷ میں ملازمت ترک کردی،اور چند مہینے بعد وہ ہیڈمولوی کی حیثیت سے حلیم مسلم ہائی اسکول کانپور چلے گئے ،جہا ں مولانا قادری ۱۹۲۷ئتک رہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : عبدالقادر جیلانیؒ کا یوم وفات
——
مولانا حامد حسن قادری جولائی ۱۹۲۷ سے ۱۹۴۵ تک سینٹ جانس کالج آگرہ میں بحیثیت اردو وفارسی لیکچرار اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور چھوٹے بھائی پروفیسر عابد حسن فریدی کے انتقال کے بعد صدر شعبہ ہوگئے، اسی حیثیت سے ۱۹۵۳میں مولانا قادری اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوئے۔
مولانا قادری نے کئی اہم علمی و ادبی کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیفات کا دائرہ تاریخ، تنقید، تذکرے، سوانح حیات، تبصرے، انتخاب، شاعری ، تاریخ گوئی، تاریخ نویسی ، افسانہ ، ڈرامہ، ترجمہ، صحافت، بچوں کا ادب، خطوط نگاری اور لسانیات وغیرہ تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ہر میدان میں ان کی تصنیفات کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے قابل قدر ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے مضمون ‘‘ مولانا حامد حسن قادری‘‘ میں لکھا ہے :
’’مولانا حامد حسن قادری معلم و ادیب تھے محقق و نقاد تھے، مورخ و تاریخ گو تھے اور علم عروض و بدیع کے ماہر تھے۔ عربی، فارسی، انگریزی، ہندی اور اردو ادب سب پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ مجھے پرچہ کا نام یاد نہیں آرہا، لیکن مولانا خود کہا کرتے تھے میری اولین تحریر ۱۹۰۳ یا ۱۹۰۴ میں پنجاب کے کسی پرچے میں شائع ہوئی تھی۔ اسی طرح کم و بیش ۶۰سال انہوں نے اردو کی خدمت میں صرف کیا۔‘‘(۲)
نومبر ۱۹۱۲ میں مولانا جب اٹاوہ میں بحیثیت استاد مقیم تھے تو اسی دوران انہوں نے تحقیقی اور تنقیدی مضامین و کتب کا مطالعہ شروع کردیاتھا۔ اٹاوہ کے ماحول نے ان میں جو تنقیدی اور تحقیقی مزاج پیدا کیاتھا وہ موقع پاکر ابھرا۔ یہی ماحول کئی اہم تحقیقی اور تنقیدی کتاب کی وجۂ تصنیف بھی بنا۔جس کی بنا پر مولانا قادری ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔
مولانا حامد حسن قادری کو جس کارنامے پر شہرت دوام حاصل ہے وہ ’داستان تاریخ اردو‘ (۱۹۴۱) ہے۔ لیکن مولانا کو جس کام میں کمال حاصل تھا، وہ تاریخ گوئی ہے۔ مولانا چلتے پھرتے تاریخ کہتے۔ خوشی، غم ، کسی دلچسپ واقعہ یا حادثہ کو نظم کردیتے۔ نظموں اور قطعات کی تعداد ہزاروں سے بھی زیادہ ہے۔ مولانا نے قرآن مجید کی آیت کریمہ سے جتنے تاریخی مادے نکالے ہیں، شاید ہی اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے تاریخ گونے قرآن مجید کی آیت کریمہ سے تاریخی مادے نکالے ہوں۔ اس کے متعلق مولانا خود لکھتے ہیں:
’’میں نے قرآن مجید کی آیت کریمہ سے اتنی تاریخیں نکالی ہیں کہ میرے علم میں کسی دوسرے تاریخ گو سے اس قدر تعداد منقول نہیں ہے۔‘‘(۳)
حامد حسن قادری بلا کے تاریخ گو تھے۔ بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے تاریخیں کہی ہیں۔ اس رعایت سے ہزاروں شعر بھی موزوں ہوگئے۔ مولانا قادری کی اکثر تاریخیں ایسی ہیں جن سے اول پورا مصرع تاریخ ذہن میں آجاتاہے، یہ سعادت معمولی نہیں۔پھر کوئی تاریخ ایسی نہیں جس میں کوئی لطیفہ ، چٹکلہ یا عجوبہ نہ ہو۔ شگفتگی اور برجستگی بلااستثناء ہر تاریخ میں ملے گی۔ اندر سے چائے لارہے ہیں، ریل میں سوار ہورہے ہیں، وضو کر ہے ہیں، غسل خانے میں ہیں، مضمون لکھ رہے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ تاریخ بھی کہہ رہے ہیں ۔مولانا کی کچھ تاریخیں مثال کے طور پر درج ذیل ہیں:
خواجہ حسن نظامی جو حامد حسن قادری کے احباب میں سے تھے ،ان کا انتقال ۱۹۲۸میں ہوا تو ان کی تاریخ وفات مولانا قادری نے قرآن مجید کی آیت کریمہ سے نکالی۔
کل نفس ذائقۃ الموت(۴) : ۱۹۲۸
اسی طرح سے جب امیر مینائی کا انتقال ۱۹۰۰ میں ہوا تو مولانا نے قرآن کریم کی سورہ و الضحی سے تاریخ وفات کہی۔
و للآخرۃ خیر لک من الاولی(۵) : ۱۹۰۰
اسی طرح کے بے شمار ایسے واقعے ہیں جن کی تاریخ حامد حسن قادری نے کہی اور اس واقعے یا حادثے کو اپنی تاریخ گوئی کے ذریعے ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا ہے۔
مولانا قادری علم عروض و بدیع کے بھی ماہر تھے اور اس موضوع پر انگریزی زبان میں ایک کتاب (The Oriental Rhetoric) لکھی، جس میں اردو، فارسی اور عربی اشعار کے ذریعے اصول و قواعد کو واضح کیا گیا ہے۔ جیسے انہوں نے صنائع لفظی کی قسم تجنیس کے بارے میں لکھا ہے:
Tajnees (called homonym in English) is formed when two or more words are used which resemble each other in spelling but differ in meaning, It is divided into the following kinds:
تجنیس تام (Tajnees-e-Tam) in English called perfect homonyme, is formed when two words are used which resemble each other in spelling and vowel marks but vary in signification, and both of which are either noun or verb.(۶)
بیسویں صدی کے ربع اول تک اردو میں بچوں کے لیے کچھ خاص نہیں کیاگیاتھا۔ مولوی اسماعیل میرٹھی نے ضرور توجہ کی تھی، لیکن وہ ضرورت کے لحاظ سے ناکافی تھی۔ اس روایت کو مولانا حامد حسن قادری نے آگے بڑھایا۔ مولانا قادری بچوں کی نفسیات کے بڑے ماہر تھے۔ استاد ہونے کی وجہ سے انہیں بچوں کی درسی، امدادی اور غیر درسی ضروریات کا بخوبی اندازہ تھا۔ نفسیات سے خاص شغف رکھنے کی بنا پر انہوں نے ایک کتاب کا انگریزی سے اردو میں ’’فطرت اطفال‘‘کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔ بچوں کا اخبار ’سعید‘‘ کانپور سے نکالا۔ مولانا کا قیام کانپور میں مسلسل دس برس کے آس پاس رہا۔ انہوں نے ۱۹۱۸ سے یہ اخبار جاری کیا۔ اس دوران کئی اور کتابیں تصنیف کیں جو درج ذیل ہیں:
۱- گم شدہ طالب علم
۲- گوہر اردو: اردو کی پرائمری ریڈر
۳- ستارۂ ہند
۴- اختر اردو: یہ کتاب مولوی اسماعیل میرٹھی کی’’سواد اردو‘‘ کے بعد (نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق) مدتوں نصاب میں شامل رہی۔
اسی طرح مولانا نے بچوں کے ادب پر بے شمار کتابیں لکھیں ،کچھ ان کی تصنیف ہیں اور کچھ کا مولانا نے دوسری زبان سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : مولانا ظہور الحسن کا یوم پیدائش
——
مولانا کو تاریخ گوئی میں جو کمال حاصل تھا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اسی طرح سے مولانا کو رباعی میں بھی بڑا کمال حاصل تھا اور حد یہ تھی کہ مولانا نے شیخ سعدی کے مشہور نعتیہ قطعہ ’’بلغ العلا بکمالہ‘‘ پر مصرع لگایا اور یہ التزام کیا ہے کہ اردو کے قافیے، عربی قافیوں کے بالکل مشابہ اور ہم آواز ہیں، غور کیجیے کہ جمالہ اور کمالہ کے طرز پر اردو کے قافیے لانا آسان نہیں۔ لیکن مولانا اس منزل سے بڑی آسانی سے گزر گئے ۔جیسے ؏
——
انہیں دل جو کردیں حوالے ہی
تو کرم پھر ان کا سنبھالے ہی
انہیں جانیں جاننے والی ہی
کہ ہیں وصف ان کے نرالے ہی
——
بلغ العلٰی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ(۷)
——
اسی طرح مولانا قادری تضمین نگاری کے محبوب مشغلے میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ اس سلسلے میں مولانا کی زیادہ توجہ غالب کی طرف ہی ہے۔ مولانا نے غالب کی بعض پوری پوری غزلوں کی تضمین کی ہے، ایک مصرع نہیں بلکہ تین تین مصرع لگائے ہیں اور خمسہ کہا ہے۔ صرف ایک غزل کے چند اشعار کی تضمین ملاحظہ ہو۔
غالب کا شعر:
——
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
——
مولانا کی تضمین:
——
نام بدنام، عشق کا نہ ہوا
میں بھی شرمندۂ وفا نہ ہوا
یہ برا کیوں ہوا بھلا نہ ہوا
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا (۸)
——
کلام غالب کے سلسلے میں تضمین کا یہ شوق مولانا کو شروع ہی سے تھا۔ کلام غالب پر مولانا کی یہ تضمین آج کچھ زیادہ اہم نہ سمجھی جائے، لیکن اب سے پچاس ساٹھ سال پہلے بہت مقبول و پسندیدہ تھیں۔ کیونکہ کہ غالب کے کسی شعر پر مسلسل غزل کے طور پر متعدد مصرعے یا اشعار لگاتے تھے ۔اور یہ اشعار غالب کے زیرتضمین شعر کی مکمل تشریح و تفصیل بن جاتے تھے۔
مولانا حامد حسن قادری کو علمی اور لسانی مباحث سے بھی دلچسی تھی۔ عربی و فارسی کے جید عالم تھے اور جس زمانے میں ابھی مشہور بھی نہیں ہوئے تھے اور حلیم مسلم ہائی اسکول کانپور میں ہیڈ مولوی تھے، ندوۃ العلماء کے ایک جلسے میں جو ۱۹۲۶ میں منعقد ہوا تھا ’’عربی مبین‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا تھا۔ اس مضمون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ لسانی دقائق پر مولانا کی کتنی گہری نظر تھی۔ بعد میں آپ کی دلچسپی تاریخ ادب، شعر و شاعری اور ادبی مباحث و تحقیق میںزیادہ بڑھ گئی۔ مولانا کی ’’داستان تاریخ اردو‘‘، ’’تاریخ و تنقید‘‘ اور ’’نقد و نظر‘‘ عہد ساز تخلیقات ہیں۔ لیکن تصانیف میں اور دوسرے مضامین بھی لسانی نکتے، اصلاح زبان اور تفحص الفاظ کے مسائل اور ان پر آپ کی تشریح ، توضیح اور دقیقہ رسی کے ساتھ موتیوں کی طرح جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔
حامد حسن قادری کی سب سے اہم کتاب ’’داستان تاریخ اردو‘‘ ہے۔ اس کتاب کے نام میں بھی تاریخ گوئی کا بڑا عمل دخل رہا۔ کچھ لوگوں نے لفظ ’داستان‘ پر اعتراض بھی کیا، لیکن مولانا قادری نے اس تعلق سے لکھا ہے:
’’کتاب کا نام……’’داستان تاریخ اردو‘‘ (=۱۹۳۸)میں نے تاریخ گوئی کے شوق میں رکھ دیا تھا۔ بعضوں نے اس پر اعتراض کیا اور سوال اٹھایا کہ یہ ’’داستان‘‘ زیادہ ہے یا ’’تاریخ‘‘ زیادہ۔ لیکن اب اشاعت ثانی میں نام بدل دیا جائے تو کتاب پہچانی نہ جائے گی۔ ‘‘(۹)
داستان تاریخ اردو پہلی بار ۱۹۴۱ میں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کے تعلق سے کئی اہم لوگوں مثبت رائے کا اظہار کیا۔ نیاز فتحپوری نے اسے’اردو کی اچھی خاصی انسائیکلو پیڈیا‘ سے تعبیر کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ سب نے مثبت رائے کا اظہار کیا۔ اقبال سہیل اور گیان چند جین نے اس کتاب کی بعض خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حامد حسن قادری اس کتاب پر از سر نو غور کرنا چاہ رہے تھے، لیکن لوگوں نے جس طرح کی دلچسپی کا اظہار کیا، اس کی وجہ سے اشاعت ثانی کی نوبت جلد آ گئی اور مولانا قادری کا جو ارادہ تھا، وہ عملی شکل نہیں اختیار کر سکا۔
دوستان تاریخ اردو میں حامد حسن قادری نے نثر کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ ابتدا میں اردو کے آغاز کے تعلق سے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ ان کا بھی نظریہ پنجاب میں ہی اردو والا نظریہ ہے۔ تقریبا نو سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب تاریخ ادب اردو میں اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اردو زبان و ادب میں اس سے پہلے جو چند ترایخ زبان اردو لکھی گئی تھی، وہ اتنی بھر پور نہیں تھی، جتنی کہ داستان تاریخ اردو ہے۔ ابتدائی کام ہونے کی وجہ سے یقینا اس کتاب میں بہت سی کمیاں ہیں، اس کے باوجود اس کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔
کتاب کے مشمولات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں حامد حسن نے بے پناہ محنت کی ہو گی۔ جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی ہے، اس وقت اتنی سہولیات دستیاب نہیں تھیں، جتنی کی اب ہے۔ یورپین مصنفین اردو کے تعلق سے بھی گفتگو کی گئی ہے اور یہ بھی بتایاگیا ہے کہ جان جوشوا کٹیلر(ڈچ)اردو کا پہلا یورپین مصنف ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں حامد حسن قادری نے کس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا۔ اس کتاب کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مصنفین کی کتابوں کے تعلق سے گفتگو کی ہے اور تحریر کو نمونہ کے طور پر پیش بھی کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حامد حسن قادری نے اصل ماخذ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔اس کتاب میں ابتدا سے سید ناصر نذیر فراق دہلوی تک کے مصنفین کا احاطہ کیا گیا ہے۔ قارئین کی آسانی کے لیے چھ دور میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ آخری دور غدر کے بعد کا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب کی تالیف سے پہلے موااد اکٹھا کیا تھا، اس کے بعد لکھنا شروع کیا۔ حامد حسن قادری کی سب سے اہم کتاب داستان تاریخ اردو ہی ہے۔ جب بھی تاریخ ادب اردو کا ذکر ہوگا، حامد حسن قادری کی اس کتاب سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا قادری ۱۹۵۳ کو سینٹ جانس کالج، آگرہ سے ریٹائر ہوئے اور ۱۹۵۴میں کراچی (پاکستان) چلے گئے ۔ زندگی کے آخری وقت تک مولانا کا قیام وہیں رہا۔ بچوں کی محبت اور ان کے اصرار پر مولانا قادری ہندوستان سے پاکستان گئے۔ لیکن مولانا کی یہ حسرت مکمل طور پر پوری نہ ہوسکی کہ وہ اپنے سارے بچوں کے ساتھ زندگی کے باقی دن گزار سکیں۔ کیونکہ کہ تلاش معاش کے سلسلے میں بچوں کو دوسرے ملکوں کی طرف کوچ کرنا پڑا۔ ۶؍جون ۱۹۶۴ء کو مولانا قادری اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لیے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
——
یہ بھی پڑھیں : محمد حمید اللہ کا یومِ پیدائش
——
مولانا قادری کے یہ کارنامے اردو زبان وادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔حامد حسن قادری کی بہت ساری کتابیں،خاص طور سے ادبِ اطفال کے حوالے جو معروف ہیں،وہ اب نایاب ہیں۔اس کے لیے جناب افضال الرحمن صاحب قابلِ مبارکباد ہیں،کہ انہوں نے مولانا قادری کی بہت ساری کتابوں کی از سر نو اشاعت کی ہے۔ کچھ اشاعت کے مرحلے میں ہے ،جو یقیناً ایک بڑا کام ہے۔کسی نے کہاتھا،جو قادری صاحب کی صحیح ترجمانی کرتا ہے :
——
اسی کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں
مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
——
حواشی
——
۱- قومی زبان کراچی، جنوری ۱۹۶۶ء: ص ۴۰
۲- خطوط قادری، حامد حسن قادری، فرید آرٹ پریس، ۱۹۹۹ء : ص ۳۳۸،۳۳۹
۳- جامع التواریخ ۔ حامد حسن قادری۔ لبرٹی آرٹ پریس، ۲۰۰۲ء :ص ۲
۴ ۔ The Oriental Rhetoric, Hamid Hasan Qadri, Bharat Offset Press, Delhi, 2003, p.no. 257
۵- دفتر تواریخ، حامد حسن قادری، لبرٹی آرٹ پریس، ۲۰۰۲: ص ۶۹
۶ ۔ The Oriental Rhetoric, Hamid Hasan Qadri, Maktaba Jamia Ltd, 2003. p.no 37
۷- بیاض نعتیہ، حامد حسن قادری، الناصر پرنٹرز، کراچی: ص ۸
۸- خطوط قادری، حامد حسن قادری، فرید، آرٹ پریس، ۱۹۹۹ء: ص ۳۳۶
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : نورِ رُسل
——
توحید ہو شائع دنیا میں جب حق کو یہ منظور ہوا
اِک پاک بشر ، اِک خاص نبی اس خدمت پر مامور ہوا
تثلیث کو باطل جس نے کیا ، توحید کو کامل جس نے کیا
ظُلمت کو زائل جس نے کیا ، عالم جس سے پُر نور ہوا
دنیا کو بتوں نے گھیرا تھا ، سب نے حق سے منہ پھیرا تھا
شرک و بدعت کا اندھیرا تھا ، اس نور سے وہ کافور ہوا
پیدا ہوا آج اک فخرِ رُسل ، پیدا ہوا آج اِک رہبرِ کُل
جو سب کے لیے تھا شمعِ سُبُل، اسکا دنیا میں ظہور ہوا
اک نورِ خدا ضوافگن تھا ، کُل عالم وادیِ ایمن تھا
وہ نور عرب میں روشن تھا جو ظاہر برسرِ طور ہوا
وہ خلقِ حلم و مجسم تھا ، وہ ہادی و رہبرِ اعظم تھا
وہ بیشک رحمتِ عالم تھا ، رحمت سے جہاں معمور ہوا
بچپن میں اُس نے شبانی کی ، مدت تک اشتر بانی کی
درویشی میں سلطانی کی ، خم جس سے سرِ فغفور ہوا
خود فکرِ معیشت اُس نے کی ، یعنی کہ تجارت اُس نے کی
محنت کی ہدایت اُس نے کی ، بیکاری سے وہ نفور ہوا
وہ رسمِ اخوت جاری کی ، ہر دل میں محبت ساری کی
وہ اس نے امانت داری کی ، دنیا میں امیں مشہور ہوا
کی اس نے کرم کی خاص نظر ، بیواؤں اور یتیموں پر
باندھی اُن کی خدمت پہ کمر ، خوش انکا دل رنجور ہوا
سکھلائی حیا داری اُس نے ، کی دور ریاں کاری اُس نے
پردے کو کیا جاری اُس نے ، جو عیب تھا وہ مستور ہوا
ابوابِ ترقی کھول دئیے ، حکمت کے موتی رول دئیے
وہ جوہرِ انمول دئیے ، ہر ایک ذی عقل و شعور ہوا
جب اُس نے قرآن ہم کو دیا ، پروانۂ غفراں ہم کو دیا
وہ گوہرِ ایماں ہم کو دیا ، جو غیرت کوہِ نور ہوا
انجیل میں جب تحریف ہوئی ، تورات میں جب تصحیف ہوئی
نازل یہ کتاب شریف ہوئی ، کیا فضلِ ربِ غفور ہوا
قرآن کیا حق نے نازل ، سب شرک و کفر ہوا زائل
جاءَ الحَقَ زَھَقَ الباطِل (حق آیا باطل دور ہوا)
جس کو اتنی صدیاں گزریں ، پھر قابل فسخ و نسخ نہیں
ایسا ہے کوئی قانون کہیں ؟ ایسا بھی کوئی دستور ہوا ؟
سائنس ابھی تحقیق کرے ، اور فلسفہ بھی تدقیق کرے
آخر اس کی تصدیق کرے ، قرآن میں جو مذکور ہوا
عصمت کوئی شے یورپ میں نہیں، ناجائز مے یورپ میں نہیں
مذہب کہیں ہے یورپ میں ؟ نہیں ، پھر کس لیے وہ مغرور ہوا
اب جاگ اٹھے یورپ سو کر ، دنیا کو نہ لے عقبیٰ ہو کر
بہتر ہے رہے مسلم ہو کر ، مسلم جو ہوا مغفور ہوا
مسلم کو نہ حُبِ جاہ رہی ، جب ہاتھ میں حبلُ اللہ رہی
تائیدِ خدا ہمراہ رہی ، ہر معرکہ میں منصور ہوا
یاں رنگ کی کوئی تمیز نہیں ، قومیت کوئی چیز نہیں
مسلم جو نہیں وہ عزیز نہیں ، سلطان ہو یا مزدور ہوا
افریقی ہو کہ حجازی ہو ، ترکی ہو کوئی یا تاری ہو
جو صائم اور نمازی ہو ، وہ عند اللہ ماجور ہوا
مسلم جو ہوا مسعود ہوا ، مقبول ہوا ، محمود ہوا
کافر جو رہا مردود ہوا ، مضغوب ہوا مقہور ہوا
——
جب سُنا کوئی طیبہ کو جانے لگا
دل تڑپنے لگا ، تلملانے لگا
تیرے محبوب کے در پہ آئے اجل
میری مٹی کو یارب ٹھکانے لگا
آ کے جنت میں پھر کوئی جاتا نہیں
آ کے روضے پہ پھر کیوں میں جانے لگا
صدقہ مخمور آںکھوں کا پھر اک نظر
ہوش مستوں کو تیرے پھر آنے لگا
چھوڑ گھر بار حامدؔ ، مدینے کو چل
دیر ، کر کے نہ حیلے بہانے لگا
——
دعا ہے ایک الہیٰ قبول ہو جائے
نصیب لذتِ عشقِ رسول ہو جائے
یہ دردِ ہجر جو اُن کو قبول ہو جائے
دلِ شکستہ کی قیمت وصول ہو جائے
تمام عمر کروں نعت اور جی نہ بھرے
بیاں لذیذ ہے پھر کیوں نہ طُول ہو جائے
چلوں جو بیخودی میں سُوئے یثرب
چُبھے جو راہ میں کانٹا وہ پھول ہو جائے
عجب نہیں مرا ارمانِ دید بر آئے
عجب نہیں مری حسرت ملول ہو جائے
یہ روح اُڑ کے ہوائے مدینہ بن جائے
یہ جسم مٹ کے وہیں خاک دھول ہو جائے
پھنسی ہے آں کے گردابِ غم میں کشتیٔ دل
یہ پار ہو جو کرم یارسول ہو جائے
کھلا ہے دل میں مرے داغِ عشق سے وہ چمن
نثار خلد کا ہر ایک پھول ہو جائے
حدیث حسن تمہاری ، مرا فسانۂ عشق
کبھی نہ ختم ہو ، کتنا ہی طُول ہو جائے
مزا اگر غمِ عشقِ نبی کا ہو دل میں
جہاں کا عیش نظر میں فضول ہو جائے
سوائے قعر جہنم کہاں ٹھکانا ہے
تمہاری راہ سے جس کو عدول ہو جائے
کریں جو حکمتِ لولاک پہ نظر حُکماء
تباہ قصرِ فروع و اصول ہو جائے
جہاں گریۂ فرقت کا رنگ جم جائے
جو آنسوؤں میں لہو کا شمول ہو جائے
کریں وہ حشر میں جن عاصیوں پہ خاص کرم
اُنہی میں کاش مرا بھی شمُول ہو جائے
مدینہ دور ہے اور شوق کا تقاضا ہے
کہ طے اک آن میں یہ عرض و طول ہو جائے
پہنچ سکیں نہ ملائک جو تا حدِ معراج
شکست کیوں نہ کمندِ عقول ہو جائے
تمہارا شوق لقا جس کے دل میں صادق ہو
اُسے خضر رہِ یثرب کا غول ہو جائے
نسیمِ طیبہ کا ارماں جو دل میں لے کے چلے
اُسے گلاب سے بڑھ کر ببول ہو جائے
الہیٰ اُسوۂ حضرت کی پیروی ہو نصیب
یہی تھا ، پھر یہی اصل الاصول ہو جائے
تمام عمر تری یاد سے رہی غفلت
دمِ اخیر نہ یارب یہ بھول ہو جائے
یہ دیکھ حوصلہ حامدؔ کا اے امانتِ عشق
ترا امیں یہ ظلوم و جہول ہو جائے
——
انتخاب از بیاضِ نعتیہ ، پیشکش اردوئے معلیٰ