جلا ہے دل تو گمان و یقیں بھی جلنے لگے

مکاں جلا تو جلا سب مکیں بھی جلنے لگے

ہوائے شہرِ ضرورت کی بے نیازی سے

گھروں کی آگ میں ہم رہ نشیں بھی جلنے لگے

غرورِ عشق سلامت رکھے خدا میرا

تری وفا سے مرے نکتہ چیں بھی جلنے لگے

تمہاری بزم درخشاں رہے ہمارا کیا

چراغِ راہ گزر ہیں کہیں بھی جلنے لگے

یہ کیسی آگ اٹھی بے اماں زمینوں سے

دیارِ فقر کے گوشہ نشیں بھی جلنے لگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]