جوطلبگار مدینے میں چلا آتا ہے

جو طلبگار مدینے میں چلا آتا ہے

ان کی رحمت کے خزینے میں چلا آتا ہے

شب کو جب کھینچتا ہے گنبدِ خضریٰ کا جمال

چاند خود سبز نگینے میں چلا آتا ہے

اُس کے سائے سے بھی طوفان لرز جاتے ہیں

جو محمد کے سفینے میں چلا آتا ہے

جب زمیں نعت کی سج دھج کے سخن بنتی ہے

آسماں خود مرے سِینے میں چلا آتا ہے

دھوپ میں سُوئے مدینہ مَیں چلا جاتا ہوں

باغ خوشبو کا پسینے میں چلا آتا ہے

جو مری پست نگاہی میں ہے تکریم رواں

خود ادَب اپنے قرینے میں چلا آتا ہے

ان کی دہلیز پہ بے چارگی سر رکھےّ تو

حسن بیمار کے جینے میں چلا آتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]