جو طلبگار مدینے میں چلا آتا ہے
ان کی رحمت کے خزینے میں چلا آتا ہے
شب کو جب کھینچتا ہے گنبدِ خضریٰ کا جمال
چاند خود سبز نگینے میں چلا آتا ہے
اُس کے سائے سے بھی طوفان لرز جاتے ہیں
جو محمد کے سفینے میں چلا آتا ہے
جب زمیں نعت کی سج دھج کے سخن بنتی ہے
آسماں خود مرے سِینے میں چلا آتا ہے
دھوپ میں سُوئے مدینہ مَیں چلا جاتا ہوں
باغ خوشبو کا پسینے میں چلا آتا ہے
جو مری پست نگاہی میں ہے تکریم رواں
خود ادَب اپنے قرینے میں چلا آتا ہے
ان کی دہلیز پہ بے چارگی سر رکھےّ تو
حسن بیمار کے جینے میں چلا آتا ہے