جو ان کے در پر جھکا ہوا ہے
فلک پہ گویا کھڑا ہوا ہے
جو اٹھ گیا ہے درِ نبی سے
وہ ذلتوں میں گرا ہوا ہے
جڑا ہوا ہے جو ان کے در سے
اسی پہ عقدہ کھلا ہوا ہے
اگر وہ راضی خدا بھی راضی
بڑوں سے ہم نے سنا ہوا ہے
بھنور کی زد میں ہے میری کشتی
فراتِ عصیاں چڑھا ہوا ہے
حضور! دستِ کرم سے تھا میں
وگرنہ غرقاب ہو چلا ہے
غلام، عاجز، خجیل، نادم
درِ نبی پر کھڑا ہوا ہے
ابھی تو مانگا نہیں ہے لیکن
یہ میرا دامن بھرا ہوا ہے
جلیل ناصح بھی تھک چکے ہیں
تو اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے