جو ایک باس گھنے جنگلوں میں آتی ہے

وہی مہک سی تری گیسوؤں میں آتی ہے

یہ المیہ ہے کہ میں جس پہ خوب ہنستا ہوں

کہ اس کو نیند مرے بازوؤں میں آتی ہے

گزر گئی ہے پھر اک اور رات سوچتا ہوں

جو روشنی سی کبھی روزنوں میں آتی ہے

شکست، کرب، ندامت، خجالتیں، وحشت

یہ ایک جان بڑی مشکلوں میں آتی ہے

تو اپنا درد کا ترکش سکوں سے خالی کر

مجھے بھی موت کئی مرحلوں میں آتی ہے

یہ اتفاق ہے اب تیری شکل میں آئی

شکست ورنہ کئی صورتوں میں آتی ہے

لہو کا ذائقہ اپنا بھی خوب ہوتا ہے

عجب مٹھاس سی جیسے لبوں آتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]