جو خود آپ اپنا جواب ہے جو خود آپ اپنی مثال ہے
یہ کمال حسن کمال ہے وہ جمال ان کا جمال ہے
ہے گماں کچھ ایسا کہ ضو فگن مرے دل میں شمع جمال ہے
یہ مرے حضور کی یاد ہے کہ چراغ بزم خیال ہے
کشش دیار مدینہ تو مجھے اپنی گود میں کھینچ لے
مرا جذب عشق بکھر چکا مرا عزم شاہد حال ہے
یہی التجا ہے کریم سے کہ ادھر بھی چشم کرم کریں
مری جان پر ہے بنی ہوئی مری زندگی کا سوال ہے
مجھے باغ طیبہ کا ذوق ہے مجھے خلد کی نہیں آرزو
یہ پسند اپنی پسند ہے یہ خیال حسن خیال ہے
سرِ حشر شافع حشر کی ہے یقیں کہ ہوں گی نوازشیں
کوئی اور ہوگا وہ میں نہیں جو غریق فکر و خیال ہے
ذرا سوچ سرورؔ غم زدہ اُنھیں اپنا حال سنائیں کیا
ہے رسول پاک پہ سب عیاں یہ جو ہم غریبوں کا حال ہے