جو سب سے پوشیدہ رہ کے سب کو لُبھا رہا ہے

وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

جو خیر و شر ہیں اسی نے تخلیق کی ہے اُن کی

وہ ابنِ آدم کو اِس طرح آزما رہا ہے

جہاں کی نیرنگیوں میں رکھ کر کشش بلا کی

پھر اپنے بندے کو اپنی جانب بلا رہا ہے

اسی سے دل اضطراب میں بھی سکون پائے

وہی ہے جس کا ذکر وجہِ شفا رہا ہے

گناہگاروں سے تو خطا پر خطا ہوئی ہے

مگر وہ رحمٰن ہے سراپا عطا رہا ہے

وہی ہے شہہ رگ سے اپنے بندے کی جو قریں ہے

وہی تسلّی ہمیشہ اُس کی بنا رہا ہے

اسی کی قدرت کے جلوے ہر شئے میں دیدنی ہیں

تجلیّاں اپنی چار سو یوں دِکھا رہا ہے

کسی کی عقلوں پہ قعرِ غفلت کی مُہر کر دی

کسی کی نظروں سے سارے پردے اُٹھا رہا ہے

وگرنہ میں کیا ہوں اور کیا میری فکر عارف

کرم سے اپنے وہ حمد اپنی لکھا رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]