جو غلامِ شہِ ابرار ہُوا خوب ہُوا

وقت کا اپنے وہ سردار ہُوا خوب ہُوا

ان کے در کا جو نمک خوار ہوا خوب ہوا

اس کی ٹھوکر میں یہ سنسار ہوا خوب ہُوا

گنبدِ سبز پُر انوار ہُوا خوب ہُوا

رشکِ فردوس وہ دربار ہُوا خوب ہُوا

مُسکرا دے جو اندھیرے میں سُوئی مِل جائے

شاہِ دِیں منبعِ انوار ہُوا خوب ہُوا

طائرِ سِدرہ اگر جائیں تو پر جل جائیں

جانا سرکار کا اُس پار ہُوا خوب ہُوا

مرحمت اس کو سبھی عِلمِ خفی اور جلی

خوب ہر شے سے خبردار ہُوا خوب ُہُوا

ورفعنا لک ذِکرک کی بہاریں دیکھو

ذکرِ سرکار چمکدار ہُوا خوب ہُوا

سرِ بالیں جو اگر دیکھنے کو وہ آئیں

کتنا خوش بخت وہ بیمار ہُوا خوب ہُوا

پیروی اُن کی کرے جو بھی ہدایت پائے

میرے سرکار کا جو یار ہُوا خوب ہُوا

ان کے قدموں میں گِرے خون کے پیاسے آ کر

شاہِ کونین کا کردار ہُوا خوب ہُوا

مدحتِ شاہ میں مِنقار جو مرزا کے کُھلے

ان کی رحمت کا یہ حقدار ہُوا خوب ہُوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]