آج آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا یوم وفات ہے

(پیدائش: 14 اکتوبر 1775ء – وفات: 7 نومبر 1862ء)
نوٹ : تاریخ پیدائش و وفات نگار عظیم کی کتاب مونوگراف سے لی گئی ہیں جو کہ اردو اکادمی دہلی کے زیرِ سایہ 2010 ء میں شائع ہوئی
——
بہادر شاہ ظفر کی غیر معمولی شہرت کی وجہ 1857 کا انقلاب ہے، تاہم ان کی ہمہ گیر شخصیت میں اس بات کا بڑا دخل ہے کہ وہ اودھ کے ایک اہم شاعر تھے۔ بہادر شاہ ظفر جس طرح بادشاہ کی حیثیت سے انگریزوں کی چالوں کا شکار ہوئے اسی طرح ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ان کے سر سے سخن وری کا تاج چھننے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ ظفر کی شاعری میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے استاد ذوقؔ کی دین ہیں۔ سرسید کے سامنے جب اس خیال کا اظہار کیا گیا ، تووہ بھڑک اٹھے تھے اور کہا ت تھا کہ ’’ذوق ان کو لکھ کر کیا دیتے اس نے تو خودزبان قلعہ معلیٰ سے سیکھی تھی۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ ظفر ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے شعری اظہار میں اردو پن کو فروغ دیا اور یہی اردو پن ظفر کے ساتھ ذو قؔ اور داغؔ کے وسیلے سے بیسویں صدی کے عام شاعروں تک پہچا۔ مولانا حالیؔ نے کہا ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرہ کی خوبی ہیں، اول تا آخر یکساں ہے‘‘ اور آب بقا کے مصنف خواجہ عبد الرؤف عشرت کا کہنا ہے کہ ’’اگر ظفر کے کلام پر اس اعتبار سے نظر ڈالا جائے کہ اس میں محاورہ کس طرح ادا ہوا ہے، روزمرہ کیسا ہے، اثر کتنا ہے اور زبان کس قدر مستند ہے تو ان کا مثل و نظیر آپ کو نہ ملے گا۔ ظفر بطور شاعر اپنے زمانہ میں مشہور اور مقبول تھے۔‘‘ منشی کریم الدین ’’ ’’طبقات شعرائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’شعر ایسا کہتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں ان کے برابر کوئی نہیں کہہ سکتا۔ تمام ہندوستان میں اکثر قوالی اور رنڈیاں ان کی غزلیں، گیت اور ٹھمریاں گاتے ہیں۔‘‘
——
بہادر شاہ ظفر کا نام ابو ظفر سراج الدین محمد تھا۔ ان کی ولادت اکبر شاہ ثانی کے زمانۂ ولی عہدی میں ان کی ہندو بیوی لال بائی کے بطن سے 14 اکتوبر 1775 میں ہوئی۔ ابو ظفر تاریخی نام ہے۔ اسی مطابقت سے انہوں اپنا تخلص ظفر رکھا۔ چونکہ بہادر شاہ کے جد امجد اورنگ زیب کے بیٹے کا لقب بھی بہادر شاہ تھا لہٰذا وہ بہادر شاہ ثانی کہلائے۔ ان کی تعلیم قلعۂ معلی میں پورے اہتمام کے ساتھ ہو ہوئی اور انہوں نے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر آزاد انصاری کا یوم پیدائش
——
لال قلعہ کی تہذیبی زندگی اور اس کے مشاغل میں بھی انہوں نے گہری دلچسپی لی۔ شاہ عالم ثانی کا انتقال اس وقت ہوا جب ظفر کی عمر 31 سال تھی لہٰذا ا نہیں دادا کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملا۔ ان ہی کی صحبت کے نتیجہ میں بہادر شاہ ظفر کو مختلف زبانوں پر قدرت حاصل ہوئی۔ اردو اور فارسی کے ساتھ ساتھ برش بھاشا اور پنجابی میں بھی ان کا کلام موجود ہے۔ ظفر منکسر المزاج اورور خلیق انسان تھے۔ ان کے اندر حلم و ترحم تھا اور غرور و نخوت ان کو چھو کر نہیں گیا تھا۔ شاہانہ عیش و آرام کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔ شہزادگی کے زمانہ سے ہی مذہب کی طرف جھکاؤ تھا اور کالے صاحب کے مرید تھے۔ اپنے والد اکبر شاہ ثانی کے گیارہ لڑکوں میں وہ سب سے بڑے تھے لیکن اکبر شاہ اپنے دوسرے چہیتے بیٹے مرزا سلیم کو ولی عہد بنانا چاہا۔ انگریز اس کے لئے راضی نہیں ہ ہوئے۔ پھر اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیوی ممتاز محل نے اپنے بیٹے مرزا جہانگیر کو ولی عہد بنانے کی کوشش کی بلکہ ان کی ولی عہدی کا اعلان بھی کر دیا گیا اور گورنر جنرل کو اس کی اطلاع کر دی گئی جس پر گورنر جنرل نے سخت تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے انگریزوں کی ہدایات پر عمل نہ کیا تو ان کی پنشن بند کر دی جائے گی۔مرزا جہاں گیر نے ایک مرتبہ ظفر کو زہر دینے کی بھی کوشش کی اور ان پر غیر فطری حرکات کا الزام بھی لگایا گیا لیکن انگریز ظفر کی عزت کرتے تھے اور ان کے خلاف محل کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔ 1837میں اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر کی تاجپوشی ہوئی۔
——
قلعہ کے دستور کے مطابق بہادر شاہ ظفر کی شادی نو عمری میں ہی کر دی گئی تھی اور تاجپوشی کے وقت وہ پوتے پوتیوں والے تھے۔ ظفر کی بیگمات کی صحیح تعداد نہیں معلوم لیکن مختلف ذرائع سے شرافت محل بیگم، زینت محل مبیتم، تاج محل بیگم، شاہ آبادی بیگم، اختری محل بیگم، سرداری بیگم کے نام ملتے ہیں، ان میں زینت محل سب سے زیادہ چہیتی تھیں اور ان سے ظفر نے اس وقت 1840 میں شادی کی تھی جب ان کی عمر 65 سال تھی جب کہ زینت محل 19 سال کی تھیں۔ تاج محل بیگم بھی بادشاہ کی چہیتی بیویوں میں تھیں۔ شاہ آبادی بیگم کا اصل نام ہندی بائی تھا۔ اختری محل بیگم ایک کانے والی تھیں، سرداری بیگم ایک غریب گھریلو ملازمزمہ تھیں جن کو ظفر نے رانی بنا لیا۔ ظفر کے 16 بیٹے اور 31 بیٹیاں تھیں۔ بارہ شہزادے 1857 تک زندہ تھے۔ بہادر شاہ ظفر ایک وسیع المشرب انسان تھے۔وہ ہندؤں کے جذبات کی بھی قدر کرتے تھے اور ان کی بعض رسوم بھی ادا کرتے تھے۔ انہوں نے شاہ عباس کی درگاہ پر چڑھانے کے لئے ایک علم لکھنؤ بھیجا تھا جس کے نتیجہ میں افواہ پھیل گئی تھی کہ وہ شیعہ ہو گئے ہیں لیکن ظفر نے اس کی تردید کی۔ انگریزوں کی طرف سے ظفر کو ایک لاکھ روپئے پنشن ملتی تھی جو ان کے شاہانہ اخراجات کے لئے کافی نہیں تھی لہٰذا وہ ہمیشہ مالی تنگی کا شکار اور قرض مند رہتے تھے۔ ساہوکاروں کے تقاضے ان کو فکر مند رکھتے تھے اوروہ نذرانے وصول کرکے نوکریاں اور عہدے تقسیم کر تھے تھے۔ لال قلعہ کے اندر چوریوں اور غبن کے واقعات شروع ہو گئے تھے۔
——
بہادر شاہ ظفر کی عمر بڑھنے کے ساتھ انگریزوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دہلی کی بادشاہت ختم کر دی جائے گ گی اور لال قلعہ خالی کرا کے شہزادوں کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے شہزادہ مرز فخرو سے جو ولی عہدی کے امیدوار تھے، ایک معاہدہ بھی کرلیا تھا لیکن کچھ ہی دنوں بعد 1857 کا ہنگامہ برپا ہو گیا، جس کی قیادت دہلی میں شہزادہ مغل نے کی۔ کچھ دنوں کے لئے دہلی باغیوں کے قبضہ میں آ گئی تھی۔ بہادر شاہ ظفر شروع میں اس ہنگامے سے بالکل بے تعلق رہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہو کیا رہا ہے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ ہندوستانی سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی ہے تو ان کی پریشانی بڑھ گئی۔ انہوں نے کوشش کی کہ ب باغی اپنے ارادے سے باز آ جائیں اور باغیوں سے کہا کہ وہ انگریزوں ان کی صلح کرا دیں گے لیکن جب باغیوں نے پوری طرح دہلی پر قبضہ کر لیا تو ان کو زبردستی مجبور کیا کہ وہ تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لیں۔ شروع میں انہوں نے بادل ناخواستہ اس زبردستی کو قبول کیا تھا لیکن جب تحریک زور پکڑی گئی تو وہ اس میں پھنستے چلے گئے اور آخر تک تحریک کے ساتھ رہے۔ یہ تحریک بہر حال جلد ہی دم توڑ گئی۔
——
یہ بھی پڑھیں : بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
——
بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد مقدمہ کی سماعت کے دوران بہادر شاہ نے انتہائی بے چارگی کے دن گزارے۔ قید میں ان سے ملنے گئی ایک خاتون نے ان کی حالت اس طرح بیان کی ہے۔ ’’ ہم نہایت تنگ و تاریک چھوٹے سے کمرہ میں داخل ہوئے۔ یہاں میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے اک کمزور، دبلا پتلا ، پستہ قد بڈھا سردی کے سبب گندی رضائیوں میں لپٹا ایک نیچی سی چارپائی پر پڑا تھا۔ ہمارے داخل ہوتے ہی وہ حقہ جو وہ پی رہا تھا، ایک طرف رکھ دیا اور پھر وہ شخص جو کبھی کسی کو اپنے دربار میں بیٹھا ہوا دیکھتا ، اپنی توہین سمجھتا تھا، کھڑے ہو کر ہم کو نہایت عاجزی سے سلام کرتا جا ررہا تھا کہ اسے ہم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔‘‘ 19 مارچ 1958 کو عدالت نے بہادر شاہ ظفر کو ان تمام جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جن کا ان پر الزام لگایا گیا تھا۔ 7 اکتوبر 1858 کو سابق شہنشاہ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی نے دہلی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا اور رنگون میں جلا وطنی کے دن گزارتے ہوئے 7 نومبر 1860 کو صبح پانچ بچے قید حیات و بند غم سے چھوٹ گئے۔
——
ظفر نے اپنے آخری زمانہ میں انتہائی پردرد غزلیں کہیں۔ شعراء ادب سے ان کو ہمیشہ گہرا لگاؤ رہا۔انہوں نے مختلف زبانوں میں شاہ نصیر، عزت اللہ عشق، میر کاظم بے قرار، ذوق اور غالب کو اپنا کلام دکھایا۔ ان کی شاعری مختلف ادوار میں مختلف رنگ لیتی رہی ، اس لئے ان کے کلام میں ہر طرح کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ ظفر کے منتخب کلام میں ان کی اپنی انفرادیت نمایاں ہے۔ تغزل، شاعرانہ کیفیات اور جمالیاتی رچاؤ کے اعتبار سے ان کا یہ کلام اردو غزل کے اس سرمایہ سے قریب آ جاتا ہے جس کی آبیاری میرؔ، قائمؔ، یقینؔ، دردؔ، مصحفیؔ، سوزؔ اور آتشؔ جیسے شعراء نے کی۔ ظفر کے کلام کا منتخب حصہ اپنے اندر ایسی تازگی، دلکشی اور تاثیر کا عنصر رکھتا ہے جس کی اپنی دائمی اقدار ہیں، خصوصاً وہ حصہ جس میں ظفر کی ’’آپ بیتی‘‘ ہے، اس میں کچھ ایسی نشتریت اور گداز ہے جو اردو غزل کے سرمایہ میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔
——
شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈی ہڈی مری اے سوز نہاں چلتی ہے
——
ظفر کی پوری زندگی ایک طرح کی روحانی کشمکش اور ذہنی جلا وطنی میں گزری۔ ایک مسلسل عذاب گتھا۔ ہڈیوں کو پگھلا دینے والا یہی غم ان کی شاعری کا اصل محرک ہے اور اس آگ میں جل کر انہوں نے جو شعر کہے ہیں وہ ہمارے سامنے ایک زبردست المیہ کردار پیش کرتے ہیں۔
——
ہر نفس اس دامن مژگاں کی جنبش سے ظفر
اک شعلہ سا بھڑکا اور بھڑک کر رہ گیا
——
ظفر کی شاعری آج اپنے مرتبہ کے از سر نو محاکمہ کا مطالبہ کرتی ہے۔
——
منتخب کلام
——
سینے میں اک دھواں کئی بار ، اٹھ کے رہ گیا
نکلا نہ میرے دل کا غبار ، اٹھ کے رہ گیا
——
توڑی مریضِ غم نے ترے اس طرح سے جان
گھبرا کے غم گسار سرہانے سے اٹھ گئے
——
شمع جلتی ہے پر اِس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈی ہڈی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے
——
میں وہ مجنوں ہوں کہ زنداں میں نگہہ بانوں کو
میری زنجیر آواز نے سونے نہ دیا
——
قفس کے ٹکڑے اڑا دوں پھڑک پھڑک کر آج
ارادہ میرا اسیرانِ ہم نفس یوں ہے
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا بائی چندا کا یوم وفات
——
برپا نہ کیوں ہو خانئہ زنداں میں روز غل
میرے جنوں سے اب تو سلاسل پہ بن گئی
——
نام میرے قتل کا منہ پر نہ قاتل لائیو
سر کے دینے کو ہے میرے ساتھ اک عالم رفیق
——
تسمہ تسمہ کر دیا بس کاٹ کر عاشق کی کھال
وہ فرنگی زادِ کلکتہ جو سیکھا ناپنا
——
جو اس کی جان پہ گزرے ہے وہ ہ جانے ہے
خدا کسی کو جہاں میں کسی کے بس نہ کرے
——
ٹیڑھے جو ہو کے تم سے کہیں کچھ وہ اے ظفرؔ
بولو نہ تم کہ ان کے ہیں یہ بانکپن کے دن
——
میں نے کہا کہو تو مسیحا تمھیں کہوں
کہنے لگے کہ کہنا ابھی پہلے مر تو لو
——
ایک بَد گو ہو تو میں اس کے سخن کو پکڑوں
واں سبھی ایسے ہیں کس کس کے سخن کو پکڑوں
——
نصیب اچھے اگر بلبل کے ہوتے
تو کیوں پہلو میں کانٹے گُل کے ہوتے
——
برنگِ طائرِ تصویر ہوں میں دامِ حیرت میں
رہائی کی مری کوئی جو صورت ہو تو کیوں کر ہو
——
سمجھ کر جو برا مجھ کو برا کہتے ہیں، کہنے دو
کہ سچ ہے میں برا ہوں، وہ بجا کہتے ہیں، کہنے دو
نہ لیں گے نام جیتے جی ہم اُن کی آشنائی کا
اگرچہ وہ ہمیں نا آشنا کہتے ہیں، کہنے دو
نہ چھوڑوں گا خیالِ زلف مجھ کو حضرتِ ناصح
بلا سے گرفتارِ بلا کہتے ہیں، کہنے دو
ہنسی آتی ہے گر تم کو, ہنسو تم شوق سے لیکن
یہ ہم رونے کا اپنے ماجرا کہتے ہیں، کہنے دو
وہ کہتے ہیں نہ باز آئیں گے اس ظلم و جفا سے ہم
اگر عشاق ہم کو پُر جفا کہتے ہیں، کہنے دو
نہ روکو، میرے غم خواروں کو میرا حال کہنے دو
لگا کر کان سن لو تم وہ کیا کہتے ہیں، کہنے دو
ظفرؔ اب لے ہی لو بوسہ تم اُن کے لعل میگوں کا
اگر وہ ہم کو بے شرم و حیا کہتے ہیں، کہنے دو
——
سوتے ہو میرے ساتھ تو ہٹ کر نہ سوئیے
وہ ساتھ سونا کیا جو لپٹ کر نہ سوئیے
ڈرتا ہوں لگ نہ جائے کہیں ماہ کی نظر
منہ سے نقاب شب کو الٹ کر نہ سوئیے
سوتے ہو کیا کہ قافلہ یارو نکل گیا
لے لیجیے ساتھیوں کو جھپٹ کر، نہ سوئیے
جو ہیں فراخ دل، انہیں کہتی ہے گور بھی
ہے یاں جگہ کشادہ سمٹ کر نہ سوئیے
خوابِ عدم سے پہلے غمِ عشق چاہیے
کیوں رکھیے صبح پر ابھی چٹ کر نہ سوئیے
ہے قہر تیرا کہنا یہ بستر پہ ہو کے گرم
گرمی میں آپ مجھ سے چمٹ کر نہ سوئیے
جھگڑوں میں عاشقی کے ہو سونا کہاں ظفرؔ
جب تک خوب ان سے نپٹ کر نہ سوئیے
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر اور کالم نگار ظفر اقبال کی سالگرہ
——
رہتا ہے جیسے دلربا ہائے ستم الگ الگ
ہم سے ہے دل الگ الگ دل سے ہیں ہم الگ الگ
رکھتے ہیں غمزدہ تیرے اپنے بقدر حوصلہ
رنج و تعب جدا جدا درد و الم الگ الگ
شرح فراق کا اثر دیکھ کے خط میں نامہ بر
کرتا قلم ہے یک قلم حرف رقم الگ الگ
ہم سے لگاؤ آپ نے رکھا جو ظاہر تو کیا
کرتے ہو روز غیر سے قول و قسم الگ الگ
ھائے غضب کہ جتنا میں اُس سے زیادہ لگ چلوں
اُتنا ہی مجھ سے وہ رہے میرا صنم الگ الگ
جو کہ حرم میں ہے وہی دیر میں بھی ہے جلوہ گر
کیا ہوا گر ہیں ظاہر ، دیر و حرم الگ الگ
یوں تو ستم شعار ہیں، جو ہیں جہاں میں خوبرو
پر ہے ظفرؔ ہر ایک کی طرزِ ستم الگ الگ
——
بنائیں یار انہیں کیا بناؤ ہو تو سہی
لگائیں کیونکر کچھ لگاؤ ہو تو سہی
جو میرے رونے ہنستے ہیں یا رب ان کو یہ غم
نصیب اگر نہ ہو سب ، آدھ پاؤ ہو تو سہی
دکھاؤں کیونکر تجھے میں، کہ ہے وہ پردہ نشیں
کہیں کچھ اے دلِ مضطر دیکھاؤ ہو تو سہی
انہیں میں دیکھو تو دریائے دل میں کیا لہریں
تم آشنائے دل اے آشناؤ ، ہو تو سہی
برنگِ نقشِ قدم جم کے ہم نہ اُٹھیں گے
پر اس کے جی میں کچھ اتنا جماؤ ہو تو سہی
تم اپنے بوسہ کی قیمت میں ہم سے کیا لو گے
بتاؤ کچھ ہمیں معلوم بھاؤ ہو تو سہی
دبا کے بیٹھے ہیں ہم اس واسطے ترا زانو
کہ کچھ عدو پہ ہمارا دباؤ ہو تو سہی
جہاں میں کون ہے ہمدرد تیرے زخمی کا
کسی کے ایسا کلیجے پہ گھاؤ ہو تو سہی
جو اپنا نقد دل و جان ظفرؔ لگا دیں ہم
قمارِ عشق میں ایک آدھ داؤ ہو تو سہی