جو لب پہ خیر الوریٰ کے آیا وہ لفظ فرمان ہو گیا ہے
بہارِ مدحت کا ہے وہ مژدہ ، ثنا کا عنوان ہو گیا ہے
چمک اٹھی پھر حسین محفل ، درودِ خیر لبشر کی ضو سے
چلا ہے ذکرِ حضور جب بھی وہ نورِ عرفان ہو گیا ہے
دیارِ طیبہ میں شب گزارے ، جہاں محبت کے ہیں نظارے
جو مدتوں سے ترس رہا تھا وہ ان کا مہمان ہو گیا ہے
رسولِ اکرم کی پیروی میں گذاری جس نے حیات اپنی
غریب و نادار وہ گدا بھی، جہاں کا سلطان ہو گیا ہے
وہی ہے عشقِ نبی میں کامل ، وہی ہے حبِّ نبی کا وارث
رہِ محبت میں چلتے چلتے فنا جو انسان ہو گیا ہے
ملیں ضیائیں مجھے ہنر کی ، وقارِ صوت و صدا بھی نکھرا
رسولِ رحمت کا ذکرِ انور ، اسی کی پہچان ہو گیا ہے
نہیں ہے گوہرؔ تمہیں سلیقہ کہ پھول الفاظ کے سجاؤ
جو کہہ رہے ہو ثنائے خواجہ ، خدا کا احسان ہو گیا ہے