جو مجھے چاہیے سب کا سب چاہیے
آپ سے چاہیے بے کسب چاہیے
میرے آقا کو ہر بات کی ہے خبر
مجھ کو کیا چاہیے اور کب چاہیے
آپ سے مانگتا ہے گدا آپ کا
اس کو جو چاہیے اور جب چاہیے
مانگنے کا سلیقہ نہیں ہے مجھے
مجھ کو سرکار سے بے طلب چاہیے
ربِّ عالم کے قرآن سے سیکھنا
احمدِ مجتبیٰ کا ادب چاہیے
قبر کی حشر کی مشکلوں میں مجھے
آپ کا ساتھ شاہِ عرب چاہیے
اُن کا در چوم لوں سنگِ در چوم لوں
حاضری کوئے محبوبِ رب چاہیے
تیرا اشفاقؔ جی تو رہا ہے مگر
کچھ قرینے سے جینے کا ڈھب چاہیے