جو مدینہ ہم بھی جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

وہیں راہ بھُول جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

میری زیست کے عناصر درِ مصطفی پہ چل کر

میرا ساتھ چھوڑ جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ ہوا کے مست جھونکے جو ارم سے آرہے ہیں

یہی طیبہ ہو کے آتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ ستاروں کا تبسّم ہے نظر نواز لیکن

جو حضور مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

مجھے زہر دینے والے بڑے کم نظر ہیں آقا

تیرے نام پر پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

یہ جو نعتِ پاک بیکلؔ سرِ بزم پڑھ رہے ہو

جو مدینہ میں سناتے تو کچھ اور بات ہوتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]