جو مقدس ہے زمانے میں مگر دیکھا ہے
ہم نے اللہ کے محبوب کا گھر دیکھا ہے
جس سے لوٹا ہی نہیں کوئی بھی مایوس کبھی
جو ہے بے مثل زمانے میں وہ در دیکھا ہے
ظلمت جاں کو کیا جس کی کرن نے روشن
شہر رحمت میں عجب نور سحر دیکھا ہے
میری جھولی میں گرے اشک گہر بن بن کر
میں نے دامن میں دعاؤں کا اثر دیکھا ہے
میں نے دیکھے ہیں برستے ہوئے انوار یہاں
لطف ہر لحظہ بانداز دگر دیکھا ہے
جب کبھی اٹھ گئی اطراف مدینہ پہ نظر
سایہ لطف کو تا حد نظر دیکھا ہے
ان کے دربار میں یارائے دعا بھی نہ رہا
اپنی لکنت پہ کرم ان کا مگر دیکھا ہے
کون گلہائے عنایت کو سمیٹے حافظ
تنگ ہر شخص نے دامان نظر دیکھا ہے