جو کہو تم سو ہے بجا صاحب

ہم برے ہی سہی بھلا صاحب

سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم

اب تو ہیں حرف آشنا صاحب

نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں

کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب

بندگی ایک اپنی کیا کم ہے

اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب

مہر افزا ہے منہ تمہارا ہی

کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب

خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ

اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب

پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے

دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب

شوق رخ یاد لب غم دیدار

جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب

بھول جانا نہیں غلام کا خوب

یاد خاطر رہے مرا صاحب

کن نے سن شعر میرؔ یہ نہ کہا

کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]