جہانِ شوق کے ہر زاویے کو با شرَف رکھا

رخِ قلب و نظر ہم نے مدینے کی طرف رکھا

حضورِ شاہِ خوباں کچھ نہیں تھا عرضِ مدحت کو

بجز حرفِ تشکر، جس کو ہم نے صف بہ صف رکھا

خبر تھی شاہِ ناقہ دار کے تشریف لانے کی

دلِ بے خود کی دھڑکن کو برنگِ صوتِ دف رکھا

بہ یک چشمِ عنایت اُن کو آتا ہے گُہر کرنا

اِسی خواہش میں خود کو ہم نے تصویرِ خزف رکھا

میانِ ذہن و دل کھِلتے رہے تسکین کے غُنچے

مدینے کے سوا ہر اِک تصور بر طرف رکھا

ترے شہرِ کرم میں تھا عنایت کا عجب منظر

دعا تھی بر لبِ لرزاں، عطا کو زیرِ کف رکھا

بہت اندیشہ تھا جذبوں کے بے اظہار مصرف کا

سخن کے بام پر بس نعت گوئی کا شغف رکھا

ہر اک دھڑکن ہوئی محوِ سلامِ شوقِ بے پایاں

جو نقشِ نعلِ شاہِ دوسَرا سینے سے لف رکھا

مریدانِ شہِ غوث الوریٰ مقصودؔؔ ! بے غم تھے

سرِ محشر حوالہ ہی ’’مُریدی لاَتخَف‘​‘​ رکھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]