حرف در حرف اک دُعا ترا نام

عشق کا پہلا مُعجزہ ترا نام

نارسائی کے عرش سے اُتر آ

ورنہ رکھ دیں گے ہم خدا ترا نام

صدیوں سوچی حروف نے ترتیب

تب کہیں لفظ میں ڈھلا ترا نام

قسمیں دے دے کے پوچھتے رہے لوگ

میں نے پھر بھی نہیں لیا ترا نام

مِٹ نہ پائے گا وقت کے ہاتھوں

لوح ِ دل پر لکھا ہوا ترا نام

ساری یادوں سے دل نشیں تری یاد

سارے ناموں سے دلرُبا ترا نام

دھیان کی خواب ناک وادی میں

رات بھر گونجتا رہا ترا نام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]