حصارِ دہر ہے ذکر خدا سنبھالے ہوئے

کبھی سنبھلتا نہیں زلزلہ سنبھالے ہوئے

کسی ستون پہ ٹھہراؤ آسماں کا نہیں

مرے خدا کی ہے ابتک رضا سنبھالے ہوئے

وہ لفظ کُن سے جو چاہے وہ خلق فرمائے

رسول پاک ہیں اُس کی عطا سنبھالے ہوئے

یہ چاند تارے نظام فلک زمین و زماں

خدا کے بعد ہیں صل علیٰ سنبھالے ہوئے

رسول پاک گئے عرش پر شب معراج

ندائے حق تھی مکمل فضا سنبھالے ہوئے

خیال محو زیارت تھے جسم گھر میں رہا

اڑا کے لے گئی مجھ کو صبا سنبھالے ہوئے

عمل کی راہ سے انجم بھٹک نہیں سکتا

ہیں ہر قدم پہ شہہِ انبیاء سنبھالے ہوئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]