حضور توبہ طلب ہوں، ُسخن ہے لرزیدہ

حضور توبہ طلب ہوں، سخن ہے لرزیدہ

خطا سرشت کا پورا بدن ہے لرزیدہ

تمھارے آنے کی ساعت ہے بالیقیں آقا

سو قبر جھوم رہی ہے، کفن ہے لرزیدہ

یہ نعت عام سی صنفِ سخن نہیں، واللہ

قلم بہ دست مرا سارا فن ہے لرزیدہ

مَیں پہلی بار مدینے گیا تو ایسے لگا

کہ جیسے مِہر کی ہر اک کرن ہے لرزیدہ

حضور بارِ دگر اذنِ باریابی ہو

حضور عرض کناں ہوں جتن ہے لرزیدہ

عجیب محفلِ مدحت جمی ہے گلشن میں

سخن سرا ہیں عنادل، چمن ہے لرزیدہ

نواحِ طیبہ میں حالت عجیب ہے مقصودؔ

وجود سر بہ گریباں ہے، مَن ہے لرزیدہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]