حضور پھر سے کریں صاحبِ مُراد مجھے

دیارِ رشکِ اِرم آ رہا ہے یاد مجھے

اُداس رُت کے سفر پر ہے رخشِ عمر، رواں

مگر وہ اسم کہ رکھتا ہے پھر بھی شاد مجھے

کرم ہُوا، تری مدحت کی صبحِ نو جاگی

نصیب نے تو بنایا تھا شب نژاد مجھے

بس ایک نعت ہی لکھی تھی، وہ بھی نا پختہ

بہ فیضِ اذن کہا سب نے زندہ باد مجھے

نوازنے پہ تو قادر ہیں وہ ورائے طلب

ملے ہیں ہاتھ ہی خواہش کے کم کشاد مجھے

سخی سے مانگا ہے جب بھی خیال مدحت کا

دیا ہے اُس نے ہمیشہ ہی مُستزاد مجھے

اگرچہ کارِ زیاں ہی رہا ہے نقدِ عمل

مگر ہے اُن کی شفاعت پہ اعتماد مجھے

بُلاوا آگیا اگلے ہی دن مدینے سے

سمجھ رہے تھے مگر لوگ ہجر زاد مجھے

نوازتے ہیں جو حرفوں کو خود ثنا کی پھبن

اُنہیں سے ملتی ہے مقصودؔ اِس پہ داد مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]