دم میں اپنے بھی جب تلک دم ہے
شکر جتنا کریں ترا کم ہے
ہر مرض کا علاج ذکر ترا
تیرا ہر نام اسمِ اعظم ہے
تیری خواہش ہے یہ ہست و بود
تیری منشا دوامِ عالم ہے
پھر یہ نبضوں میں کس لئے تیزی
کیوں نظام جہاں یہ برہم ہے
میرے مالک بہار آجائے
میرا موسم خزاں کا موسم ہے
نوحہ خواں کوئی ہے جو مجھ میں ہے
کون میرا شریک ماتم ہے
ذکر سے اس کے کشتِ جاں ہے گداز
نم ہے مٹی میں چاک میں دم ہے
ہر خوشی دی ہے یاد نے اس کی
اس کی سوچوں سے دل میں سرگم ہے
اس سے باتیں ہیں روز و شب خسؔرو
ایک وہ ہی تو میرا محِرم ہے