حوالہ ہے وہ عفو و درگزر کا

وہی ہے رہنما مجھ بے بصر کا

تصور میں خدا کے رُوبرو میں

ہوں رہتا سر خمیدہ، دست بستہ

نہیں تیرے سوا معبود کوئی

سمجھ جائے گا انساں رفتہ رفتہ

محبت گر کرے انساں خدا سے

رہے اس کو نہ کوئی ڈر نہ کھٹکا

کرے انساں ہر انساں سے محبت

ہے یہ منشور انساں کی بقا کا

ہمارے راہبر ہی راہزن ہیں

دِکھا ان کو خدایا سیدھا رستہ

ترے لطف و کرم سے شادماں ہے

ظفرؔ تھا دل گرفتہ، دل شکستہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]