حَسیں دیار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

حرا کے غار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

کرم ہوا ہے ، نہیں کوئی بھی خزاں باقی

مَیں اس بہار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

ہوں اِس جگہ پہ جہاں کھوٹے سکے چلتے ہیں

مَیں کاروبار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

زہے نصیب کہ پایا ہے جس کو طیبہ میں

مَیں اس غبار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

ملا جو کیف عجب اور سرور طیبہ میں

میں اس خمار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

یہ ناز بھی ہے ثنا گو شہِ مدینہ کی

میں اس شمار سے نکلوں تو کوئی بات کروں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]