خاک تھا ، جزو ِ خاکداں ٹھہرا

خاک تھا ، جزوِ خاکداں ٹھہرا

میں بہر حال رائیگاں ٹھہرا

ہو گئے آر پار ہاتھ ترے

میں ترے واسطے دھواں ٹھہرا

درد میں کس طرح کمی ہو گی

عشق کم بخت جاوداں ٹھہرا

چیختا رہ گیا میں رستوں میں

وقت ٹھہرا ، نہ کارواں ٹھہرا

مضمحل ہو گئے قوی ، لیکن

جذبہِ جستجو جواں ٹھہرا

میں کنارے کی گھاس میں اُلجھا

وہ مگر موج تھا رواں ٹھہرا

میں سراپاء سخنوری ناصر

اور وہ قابلِ بیاں ٹھہرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]