خاک ہم ہیں،کوہِ فاراں ہیں علیِ مرتضی

دشت ہم ہیں ، ابر باراں ہیں علیِ مرتضی

ماورا تعداد سے ، اوزان سے ، مکیال سے

لطف تیرا ، تیرے احساں ہیں علیِ مرتضی

جملہ اربابِ شجاعت ، جملہ احباب سخن

تیری اک جنبش پہ قرباں ہیں علیِ مرتضی

رات ہجرت کی ہے ، بستر سیدِ کونین کا

آج تو قسمت پہ نازاں ہیں علیِ مرتضی

گردشِ ایام ، سیلابِ بلا ، کہسارِ غم

تیرے صدقے مجھ سے لرزاں ہیں علیِ مرتضی

تشنگی کا راج قائم رہ سکے کیونکر بھلا

جب قسیمِ جامِ عرفاں ہیں علیِ مرتضی

اہل عالم کے لیے ہیں جو ہدایت کا نصاب

وہ ترے اقوال و فرماں ہیں علیِ مرتضی

لا فتی الا علی سے بھید یہ ہم پر کھلا

شاہ مرداں شیر یزداں ہیں علیِ مرتضی

قافلے خوشبو کے اترے فکر کی دہلیز پر

یہ تری یادوں کے احساں ہیں علیِ مرتضی

کاش میں دیکھوں مزارِ فیض پرور آپ کا

حسرتیں یہ دل میں رقصاں ہیں علیِ مرتضی

اس لیے رہتا ہے ان کا ذکر ہونٹوں پر صدف

روح کی تسکیں کا ساماں ہیں علیِ مرتضی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]