خبر ہے کیا یہ بشر کو وہ نور جانتے ہیں

ہمارے غَم کی حقیقت حضور جانتے ہیں

وہ لفظِ کُن کی حقیقت، نظامِ موت و حیات

ہوا ہے کیسے جہاں کا ظہور جانتے ہیں

کیوں آرزوئے کلیمی پہ ’’لن ترانی‘‘ تھی

کہ ریزہ، ریزہ ہوا تھا وہ طُور جانتے ہیں

عیاں ہے اُن پہ سبھی اَبرَہَہ کا قصّہ بھی

کہاں سے آئے کیوں آئے طیور، جانتے ہیں

نکال ڈالو اگر بیج سارے کھیتی سے

اُگانا پھر بھی وہ اعلیٰ کھجور جانتے ہیں

زَمن، زَمانوں کی باتیں تمام تر واللہ

حضور جانتے ہیں بس حضور جانتے ہیں

وہ مشکلوں میں بھی مشکل کشائی کرتے ہیں

مدد بھی کرنا جہاں کی وہ نور جانتے ہیں

دَرِ نبی پہ ادب کا خیال رکھنا رضاؔ

جو عِلم رکھتے ہیں وہ تو ضرور جانتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]