خدا سے روز ازل کس نے اختلاف کیا

وہ آدمی تو نہ تھا جس نے انحراف کیا

ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے

خود اپنے جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا

خدا گواہ ، کہ میں نے خود آگہی کے لئے

سمجھ کے خود کو حرم، عمر بھر طواف کیا

رہیں گے قصرِ عقائد نہ فلسفوں کے محل

جو میں نے اپنی حقیقت کا انکشاف کیا

میں کیا بتاؤں کہ قلب و نظر پہ کیا گزری

کرن نے قطرۂ شبنم میں جب شگاف کیا

وہی تو ہوں میں کہ جس کے وجود سے پہلے

خود اپنے رب سے فرشتوں نے اختلاف کیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]