خرد ہُشیار ہو جائے انا بیدار ہو جائے

کچھ ایسے حادثہ سے دل مرا دوچار ہو جائے

قیامت جھیلنے کو پہلے دل تیار ہو جائے

کرے پھر آرزو اس حسن کا دیدار ہو جائے

ہجومِ غم کی یورش بے اثر بے کار ہو جائے

نہ خود احساسِ دل گر در پئے آزار ہو جائے

سیہ خانہ یہ دل قندیلِ صد انوار ہو جائے

اگر ان کی توجہ کی نظر اک بار ہو جائے

میں ایسی زندگی پر موت کو ترجیح دیتا ہوں

سکوں سے سانس لینا تک بھی جب دشوار ہو جائے

نشاطِ زندگی منت پذیرِ مرگ ہے یعنی

نہ مرنا ہو تو جینے ہی سے دل بیزار ہو جائے

دلِ ویراں کی ویرانی مجھے تسلیم ہے لیکن

ابھی تم اک نظرؔ ڈالو یہی گلزار ہو جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]