خزاں کی رُت میں بھی دل کی کلی کِھلی ہُوئی ہے

ترے کرم ہی سے خیرات یہ مِلی ہُوئی ہے

دُرود پڑھتا ہُوا آ رہا ہوں محفل سے

اِسی لئے مری رنگت کِھلی کِھلی ہُوئی ہے

حضور کوئی سہارا کہ گرنے والی ہے

مری فصیل جو بنیاد سے ہِلی ہُوئی ہے

اے نُطقِ پاک مرے دل کی خامشی کو توڑ

مری صدا مرے حلقوم میں سِلی ہُوئی ہے

بس ایک موجۂ رحمت کہ کِھل اُٹھے سینہ

مسلّط آج بہت مُجھ پہ بے دِلی ہُوئی ہے

مَیں گِرتے پڑتے ہی طیبہ کی سمت چل پڑا ہُوں

شکستہ پاؤں ہیں اور پُشت بھی چِھلی ہُوئی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]