خلوت میں کبھی یاد جو آئی ترے در کی
سوچوں میں ہی تصویر بنائی ترے در کی
شاہوں کے وہ صد ناز اٹھاتا بھی تو کیسے
تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی
آتے ہیں سلامی کو شب و روز فرشتے
خلّاق نے یہ شان بنائی ترے درکی
سرکار! بناؤں گا اسے آنکھ کا سرمہ
اس شوق میں کچھ خاک اٹھائی ترے در کی
جب جب بھی ہوا ذکر مدینے کی گلی کا
ہر بار طلب عود کے آئی ترے در کی
طیبہ کا مسافر ہے مقدر کا سکندر
جس کو ہے کشش کھینچ کے لائی ترے در کی
ہم پر یہ جلیل اُس کا ہے احسان کہ جس نے
بخشش کو ہمیں راہ دکھائی ترے در کی