خواب کی دہلیز پر پلکوں کا نم رہ جائے گا
دید کی تعبیر نا ملنے کا غم رہ جائے گا
دولتِ دیدار مجھ کو بھی عطا فرمائیے
میری آنکھوں کی بصارت کا بھرم رہ جائے گا
ہم بدن اپنا مدینے سے اٹھا لے جائیں گے
دل ہمارا آپ کی چوکھٹ پہ خم رہ جائے گا
چھوڑ جائیں گی ہمیں اعمال کی خوش فہمیاں
بر سرِ میزان بس ان کا کرم رہ جائے گا
محوَ ہو جائیں گی آخر کار یہ بے تابیاں
لوحِ دل پر آپ کا نقشِ قدم رہ جائے گا
آئیں گے وہ موت کی سب تلخیوں کو روندنے
آخری جب زندگی میں ایک دم رہ جائے گا
دیکھنا اشفاق مٹ جائیں گے سب رنج و الم
غم حسین ابنِ علی کا بیش و کم رہ جائے گا