آ
خواہشِ دید! کبھی حیطۂ ادراک میں آ
خواب کو خلد بنا ،دیدۂ نمناک میں آ
ا
میرے سینے میں دھڑکتی ہے مدینے کی دعا
زیست باقی ترے قدمین میں جینے کی دعا
ب
تیرے دربار میں لایا ہوں فقط حرفِ طلب
تیرے شایان نہیں گرچہ مرا ظرفِ طلب
پ
باغِ کونین کے ہر پھول کی مہکار ہیں آپ
ربِ طرفین کی تخلیق کے شہکار ہیں آپ
ت
ذکر درہم کا زباں پر ہے نہ دینار کی بات
ہے تو بس سنگِ درِ سیدِ ابرار کی بات
ٹ
حجرۂ دل میں ہوئی ان کے قدم کی آہٹ
ہر طرف ہونے لگی ابرِکرم کی آہٹ
ث
آپ ہیں بے کس و نادار کے تنہا وارث
بے نوا اور گنہگار کے تنہا وارث
ج
دے ہمیں اپنی محبت کا اطاعت کا سراج
تاکہ مل جائے ہمیں قبر میں راحت کا سراج
چ
اوجِ قرآن میں لکھی ہوئی ہر نعت بھی سچ
سیرتِ صاحبِ قوسین کی ہر بات بھی سچ
ح
تیری چوکھٹ کو ترستا ہے نمِ قوسِ قزح
گنبدِ سبز کی خاطر ہے خمِ قوسِ قزح
خ
ہے مدینے کی طرف میرے خیالات کا رخ
مدحِ سرور کی طرف ہے مرے نغمات کا رخ
د
بے عدد ذاتِ محمد پہ سلام اور درود
وقتِ آخر بھی زباں پر ہو یہ نام اور درود
ڈ
جچ نہیں سکتا کسی طور بھی عامی پہ گھمنڈ
پھر بھی کرتا ہوں محمد کی غلامی پہ گھمنڈ
ذ
نعت لکھنے کے لئے کام جو آیا کاغذ
میں نے آنکھوں سے کبھی دل سے لگایا کاغذ
ر
جب بھی آتا ہے تصور میں حرا کا منظر
میری آنکھوں سے ٹپکتا ہے دعا کا منظر
ڑ
اے دلِ تیرہ شباں مہبطِ انوار سے جڑ
رشکِ فردوس کے ہر کوچہ و بازار سے جڑ
ز
مرکزِ دل میں دھڑکتا ہے سدا گنبدِ سبز
بامِ نزہت پہ چمکتا ہے سدا گنبدِ سبز
س
حشر کے روز عطا سایۂ دیوار ہو بس
ہاں مری جائے پنہ آپ کا دربار ہو بس
ش
دل میں یوں بس گئی ہے گنبدِ اخضر کی کشش
اب نظر آتی نہیں ہے کسی منظر کی کشش
ص
ہر نبی خاص ہے محبوبِ خداخاص الخاص
ساری مخلوق میں رتبہ ہے جدا خاص الخاص
ض
رشکِ خورشید و جہاں تاب ہیں ان کے عارض
رنگ اور نور کے اسباب ہیں ان کے عارض
ط
حشر میں شافعِ محشر کا ملے سات فقط
یاد رہ جائے سنانے کو کوئی نعت فقط
ظ
ہیں مرے نامۂ اعمال میں توصیف کے لفظ
صاحبِ کوثر و تسنیم کی تعریف کے لفظ
ع
میرے آقا مرے داتا مرے سرور ہیں رفیع
میرے مولا مرے صاحب مرے پرور ہیں رفیع
غ
تیرگی چاہتی ہے نکہت و نزہت کے چراغ
یعنی سرکارِ دو عالم کی محبت کے چراغ
ف
دل جھکا رہتا ہے ہر وقت مدینے کی طرف
پھونک دو اسمِ محمد مرے سینے کی طرف
ق
عنبر و عود کی خوشبو سے معطر ہیں ورق
مدحتِ نورِ مجسم سے منور ہیں ورق
ک
دیکھ کر سرورِ کونین کے تل وے کی چمک
ہے خجل ماہِ جہاں تاب کے جلوے کی چمک
گ
دیکھ لوں گنبدِ اخضر وہ مثالی خوش رنگ
چوم لوں روضۂ سرکار کی جالی خوش رنگ
ل
شافعِ حشر کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے سائل
بخشش و جود و کرم مانگ رہا ہے سائل
م
کیجئے مجھ پہ کرم سرور و سلطانِ حرم
پھر بنا لیجے مجھے زائر و مہمانِ حرم
ن
لائقِ شان نہیں حرفِ کہن شاہِ زمن
دے کوئی حرف نیا بہرِ سخن شاہِ زمن
و
یا نبی ایک جھلک مجھ کو دکھانے آؤ
میری سکرات کو آسان بنانے آؤ
ہ
خالقِ کل کا ہے شہکار نبی کا چہرہ
دونوں عالم میں نہیں دوسرا ایسا چہرہ
ی
ہو جو مقبول ترے در پہ سلامی میری
مستند ہوگی سرِ حشر غلامی میری
ے
جب بھی اشفاق غمِ ہجر ستانے آئے
نعت کے حرف مجھے غم سے بچانے آئے