خوشبو گلاب میں خوش، پتّا شجر میں خوش ہے

خوشبو گلاب میں خوش ، پتّا شجر میں خوش ہے

جو بھی ہے اپنے اپنے دیوار و در میں خوش ہے

پیروں پہ جو کھڑا ہے ، یہ ہے زمین اُس کی

ہے آسمان اُس کا ، جو بال و پر میں خوش ہے

یہ ہجر کون جانے ، یہ بات کون سمجھے

میں اپنے گھر میں خوش ہوں وہ اپنے گھر میں خوش ہے

تُو ہی بتا محبت ، یہ بھی کوئی خوشی ہے

یہ دل مِرا اکیلا ، اس شہر بھر میں خوش ہے

جتنے بھی ہیں مسافر سب کے اصول الگ ہیں

کوئی قیام میں اور کوئی سفر میں خوش ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]